Quantcast
Channel: Salaam Pakistan سلام پاکستان
Viewing all 458 articles
Browse latest View live

Double Happiness

$
0
0

The UN-sponsored World Happiness Report 2017 ranks China at 79, Pakistan at 80 and India 122 among 155 countries. A Forbes magazine analysis attributed the Pakistani population’s significantly higher ‘happiness’ than India’s to two factors: greater economic freedom and larger government expenditures. Such expenditures have been made possible mostly by the CPEC project.

Pakistani ‘happiness’ can be further enhanced if the country can efficiently execute the CPEC infrastructure projects and extend these investments to social infrastructure and the real economy. So far, despite glitches, CPEC implementation is proceeding well. But Pakistan must address three major issues. Keep reading 》》》》
https://www.dawn.com/news/1324283/double-happiness


Z A Bhutto - Legacy بھٹو کا ورثہ یا بوجھ

$
0
0

ہم نے اپنی تاریخ کو ہمیشہ مسخ کیا ہے۔ محمد بن قاسم کے حملے سے لے کر مغلیہ خاندان کی حکومت تک ہم نے حقائق کو لوگوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ اسی روایت کو ہم اب تک دوہرا رہے ہیں۔ ہم صرف مثبت نکات کو محفوظ کرتے اور منفی نکات کی پردہ پوشی کرتے اور ایک گمراہ کُن رویے کے مُرتکب ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک احمد سے لے کر پروفیسر کے کے عزیز تک اس بات کا بہت رونا رویا گیا ہے اور اس کے نقصانات سے بھی آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہم نے اسے کبھی اہمیت نہیں دی۔ اور ابھی تک اپنے پسندیدہ اشخاص کو ہیرو ہی بنا کر پیش کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ آخر وہ بھی بندہ بشر ہی تو تھے اور ان میں بشری خامیاں بھی موجود تھیں۔
یہی کچھ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا جا رہا ہے حالانکہ جو کچھ اس دور میں ہوتا رہا ہے ہمارے سامنے کی باتیں ہیں اور ابھی انہیں تاریخ کا درجہ بھی حاصل نہیں ہوا ہے ۔یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں خود پیپلز پارٹی کا اساسی رکن اور اس کے کئی عہدے بھگتا چکا ہوں اور ان نظریات پر اب تک قائم ہوں جو اس پارٹی کے منشور میں درج تھے‘ لیکن یہ بات ہمیشہ فراموش کر دی جاتی ہے کہ اس نعرے اور نظریات کے خالق بھٹونہیں بلکہ جے اے رحیم ‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ حنیف رامے ،شیخ رشید احمد اور دیگران تھے۔ یہ ترقی پسند نظریات دراصل بھٹو پر تھوپ دیے گئے تھے جن کی وجہ سے انہیں اور پارٹی کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی ورنہ بھٹو بنیادی طور پر ایک جاگیردارانہ ذہنیت کا مالک تھا اور تکّبر شقی القلبی اور فسطائیت اس کے رگ و ریشے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ چنانچہ جو بہیمانہ سلوک اس نے پارٹی کے معماروں کے ساتھ روا رکھا وہ بھی کسی کو بھولا نہیں ہے۔ چنانچہ جو ذلت آمیز سلوک جے اے رحیم کے ساتھ روا رکھا گیا اور حنیف رامے اور افتخار تاری وغیرہ پر شاہی قلعہ میں جو ظلم ڈھائے گئے۔ وہ سب کو یاد ہیں اور پھر اپنے ہی ایک جانثار ملک قاسم اور جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل احمد کے ساتھ جو ناقابل بیان ذلت روا رکھی گئی اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔بھٹوکے خلاف قتل کا جو مقدمہ چلا اسے پارٹی کے لوگوں کی طرف سے عدالتی قتل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ قتل بھٹو نے نہ کروایا ہو لیکن جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر کا قتل کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ سزا یاب ہونے کا یہ شاخسانہ ڈاکٹر نذیر ہی کے قتل کا ہو کیونکہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور کسی بھی جرم کے بہانے برس سکتی ہے۔
یہ بھی آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ پارٹی منشور کے طفیل اقتدار کے مزے لوٹ کر اس نے وہی جاگیردار اپنے اردگرد اکٹھے کر لیے جن نونوں‘ ٹوانوں اور قریشیوں کے خلاف یہ ساری کار گزاری روا رکھی گئی تھی اور شاعر کو یہ کہنا پڑا ؎
ہم نے جدوجہد کرنا تھی ظفرؔ جن کے خلاف
وہ سبھی آ کر ہماری صف میں شامل ہو گئے
اور‘یہ بھی سب نے دیکھا کہ اس کی پھانسی پر کئی پارٹی اکابرین مٹھائیاں تقسیم کرتے پائے گئے۔ عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔
پیپلز پارٹی شہیدوں کی جماعت کہلاتی ہے‘ بھٹو کے بعد بینظیر اور مرتضیٰ بھٹو جن میں شامل ہیں۔ بینظیر کی شہادت کا براہ راست فائدہ چونکہ زرداری کو پہنچ رہا تھا اسی لیے ایک تو اس نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کو حقائق تک رسائی حاصل نہ کرنے دی اور اس کے اعلان کے باوجود کہ انہیں بینظیر کے قاتلوں کا پتہ ہے‘ حکومت میں ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا۔ تیسرے شہید مرتضیٰ کے بارے میں بھی شک و شبہ کا راستہ اور کُھرا زرداری ہی تک جاتا ہے جن کی تصویر مرتضیٰ بھٹو نے اپنے کموڈ پر لگا رکھی تھی اور بینظیر وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اس قتل کا راز نہ کھول سکیں۔بھٹو کے یوم شہادت پر پیپلز پارٹی نے ہر زبان میں چھپنے والے ہر اخبار میں 16صفحے کا رنگین ضمیمہ شائع کرایا ہے۔ یہ اربوں روپیہ آخر کہاں سے آیا ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے بھی سائنسدان ہونا ضروری نہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ سب الیکشن کی تیاریاں ہیں جن کا پارٹی کو پورا پورا حق حاصل ہے لیکن یہ بات بڑی آسانی سے فراموش کر دی جاتی ہے کہ 78ء کا الیکشن جس میں بھٹو کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی‘ اس کے پیچھے وہ افراد تھے جو پارٹی بنانے والے تھے اور جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس الیکشن کا جھنڈا زرداری نے اٹھایا ہوا ہے جس کا اپنا اور دیگر عمائدین کا ٹریک ریکارڈ کوئی خاص قابل رشک نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ مقابلے میں بھی کوئی صوفی نہیں ہیں اور ان کی حالت ان سے بھی بدتر ہے لیکن وہ اقتدار چرانا بلکہ چھیننا تک جانتے ہیں جبکہ پارٹی نے اپنے حالیہ دورِ اقتدار میں صرف ایک کام کیا ہے جو اظہر من الشمس ہے۔ پیسہ پیپلز پارٹی بھی بہت خرچ کر سکتی ہے لیکن اب یہ حربہ خاصی حد تک ناکارہ ہو چکا ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے پیپلز پارٹی کو سب سے پہلے عوام پر اپنا اعتبار قائم کرنا ہو گا اور اس منشور پر ہی بھروسا کرنا ہو گا جس کے طفیل بھٹو نے الیکشن جیتا تھا۔علاوہ ازیں ایسے زعماء جو بے شک اپنی سیٹ کے حصول پر مطمئن ہوں لیکن پارٹی کے لیے ایک بوجھ ہی ثابت ہوں گے۔
پارٹی کو سندھ کارڈ استعمال کرنے کی بجائے سندھ میں اپنی کارگزاری کو بہتر بنانا ہو گا اور کسی حد تک اپنا چہرہ بھی بدلنا ہو گا۔ ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن جیسے لوگوں سے ملاقاتیں بے فائدہ ثابت ہوں گی۔ پارٹی کو اگر اپنے ترقی پسندانہ ورثے سے دوبارہ فیضاب ہونا ہے تو اس تبدیلی کو نظر بھی آنا چاہیے اور یہی ایک گیدڑ سنگھی ہے جس کی بناء پر پارٹی اپنا کھویا ہوا وقار اور چھنا ہوا تخت حاصل کر سکتی ہے ع
اور درویش کی صدا کیا ہے
آج کامقطع
اُن کا برتائو ہی برا ہے‘ ظفر
ویسے وہ آدمی تو اچھے ہیں
ظفر اقبال 


 more at: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/zafar-iqbal/2017-04-06/19123/71472330#sthash.AAWOA7hN.dpuf
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Kon jeeta kon haara? کون جیتا کون ہارا؟

$
0
0




الطاف قمر سابق انسپکٹر جنرل پولیس اپنے تجربات کو دلچسپ انداز میں تحریر کر رہے ہیں -  "کون جیتا کون ہارا؟"اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، ملاحظہ فرمائیں.. پی ڈی ایف فائل :https://goo.gl/Wmk1sa




.
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

13 damning remarks made by Justice Khosa on Panamagate

$
0
0

Below are excerpts from the dissenting notes of the Supreme Court’s Panamagate case, written by Justice Asif Saeed Khosa.
"
پاناما گیٹ فیصلہ: جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی جانب سے سنائے گئے پاناما لیکس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ 5 رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے اور فیصلے میں ججز کی رائے 2:3 میں تقسیم رہی۔

1۔ جسٹس کھوسہ نے ’دی گاڈ فادر‘ کے قول سے آغاز کیا

پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے ماریو پوزو کے مشہور ناول ’دی گاڈ فادر‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ’ہر عظیم قسمت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔‘

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ’یہ ایک طنز اور سرار اتفاق ہے کہ موجودہ کیس بھی بالزاک کی اسی بات کے گرد گھومتا ہے۔‘

2۔ دیگر اداروں نے نواز شریف کے خلاف تحقیقات سے انکار کیا یا ناکام ہوئے

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’ان درخواستوں کو عدالت نے اس لیے سننے کا فیصلہ کیا کیونکہ ملک کے دیگر متعلقہ اداروں، جیسا نے قومی احتساب بیورو، وفاقی تحقیقاتی ادارے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈر بورڈ آف ریونیو اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر بدقسمتی سے یا تو معاملے کی تحقیقات میں ناکام رہے یا انہوں نے اس سے انکار کیا، جبکہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی نہیں بھیجا۔‘

3۔ عدالت عظمیٰ نے معاملہ اس لیے اٹھایا،تاکہ وزیر اعظم کو کھلی چھٹی نہ ملے

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ’اگر عدالت میں صرف اس لیے معاملے میں دلچسپی نہ لے کیونکہ اس میں حقائق جاننے کے لیے چند متنازع اور پیچیدہ سوالات شامل ہیں، تو یہ پیغام جائے گا کہ اگر ملک کا طاقتور اور تجربہ کار وزیر اعظم اپنے وفاداروں کو تمام متعلقہ اداروں کا سربراہ نامزد کرتا ہے، جو کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے ذمہ دار ہیں تو ایسی تحقیقات یا انکوائری میں وفادار وزیر اعظم کو احتساب سے مستثنیٰ کردیں گے۔‘

’یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کتنے بھی بڑے آدمی بن جائیں قانون آپ سے بڑا ہی رہتا ہے، جمہوری، احتساب اور قانون کی حکمرانی کی اسی روح کے مطابق ہی یہ عدالت وفاق کے وزیر اعظم یا چیف ایگزیکٹو کو کھلی چھٹی نہیں دے سکتی اور وہ بھی صرف اس لیے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے یا کرپشن کے الزامات کی تحقیقات نہیں کی جاسکتیں جو نواز شریف کے خلاف لگائے گئے ہیں۔‘

4۔ نواز شریف دیانتدار نہیں رہے

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ کیسے اور کن وسائل کے ذریعے مدعا علیہ کے والد نے اتفاق فاؤنڈریز کی نیشنلائزیشن کے 18 ماہ کے اندر 6 نئی فیکٹریاں کیسے قائم کیں، بالخصوص تب جب یہ بتایا جاچکا ہے کہ مدعا علیہ کے بڑوں کی تمام جمع پونجی کا نام و نشان تک مٹ چکا تھا۔‘

’یہ بات بھی انتہائی قابل غور ہے کہ اس تقریر میں یہ بلکل واضح نہیں کیا گیا کہ دبئی میں بھی ایک فیکٹری قائم کی گئی جسے 1980 میں فروخت کیا گیا۔ تقریر میں مکہ کے قریب فیکٹری کے قیاما کے لیے دستیاب یا حاصل کیے جانے والے فنڈز کی تفصیلات بھی بلکل نہیں بتائی گئیں۔‘

’نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ سچے حقائق ہیں، تاہم حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور بدقسمتی سے نواز شریف نے اس وقت سچائی بیان کرنے میں کفایت شعاری سے کام لیا۔‘

5۔ لندن کی جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں؟

’تقریر میں یہ بلکل واضح نہیں کیا گیا کہ لندن میں متعلقہ 4 جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں اور نواز شریف نے اُس موقع پر یہ بلکل نہیں بتایا کہ ان کا ان جائیدادوں کی ملکیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یا ان جائیدادوں کو حاصل کرنے کے لیے ان کا کوئی پیسہ استعمال نہیں ہوا۔‘ جسٹس کھوسہ کے مطابق ’22 اپریل 2016 کو نواز شریف نے اس معاملے پر ایک بار پھر قوم سے خطاب کیا، لیکن اس میں بھی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ لندن میں یہ جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں۔

6۔ وزیراعظم کے پہلے یا دوسرے خطاب میں دبئی فیکٹری کا ذکر نہیں

’16 مئی 2016 کو وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں تحریری تقریر کی جسے ٹیلی وژن اور ریڈیو پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اگر اس تقریر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ نے یہاں دبئی میں فیکٹری کی تعمیر اور اس کی فروخت کا ذکر کیا، لیکن معاملے پر قوم سے اپنے پہلے یا دوسرے خطاب میں وزیر اعظم نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

’حالیہ تقریر میں مدعا علیہ نے کہا کہ 1999 میں ان کے خاندان کے کاروبار کا پورا ریکارڈ انتظامیہ نے اپنے قبضے میں کر لیا اور کئی بار کی درخواستوں کے باوجود انہیں وہ ریکارڈ واپس نہیں دیا گیا، لیکن بعد ازاں اسی تقریر میں وزیر اعظم کا دوٹوک الفاظ میں کہنا تھا کہ دبئی اور جدہ فیکٹریوں سے متعلق تمام ریکارڈ اور دستاویزات موجود ہے جسے کسی بھی کمیٹی یا فورم کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔



Justice Khosa headed the five member bench which was split 2:3 in its verdict.

1. Justice Khosa opened with a quote from The Godfather.

“The popular 1969 novel ‘The Godfather’ by Mario Puzo recounted the violent tale of a Mafia family and the epigraph selected by the author was fascinating: Behind every great fortune there is a crime. — Balzac”

The judgement continues: “The novel was a popular sensation which was made into an acclaimed film. It is believed that this epigraph was inspired by a sentence that was written by Honoré de Balzac… as follows:

(The secret of a great success for which you are at a loss to account is a crime that has never been found out, because it was properly executed)

It is ironical and a sheer coincidence that the present case revolves around that very sentence attributed to Balzac...”

Justice Khosa later added:

"I may, therefore, be justified in raising an adverse inference in the matter. The fortune amassed by respondent No. 1 is indeed huge and no plausible or satisfactory explanation has been advanced in that regard. Honoré de Balzac may after all be right when he had said that behind every great fortune for which one is at a loss to account there is a crime."

"In the above mentioned sorry and unfortunate state of affairs a conclusion has appeared to me to be unavoidable and inescapable that in the matter of explaining the wealth and assets respondent No. 1 has not been honest to the nation, to the nation’s representatives in the National Assembly and even to this Court."

2. He said other institutions failed or refused to probe Nawaz

“These petitions had been entertained by this Court in the backdrop of an unfortunate refusal/failure on the part of all the relevant institutions in the country like the National Accountability Bureau, the Federal Investigation Agency, the State Bank of Pakistan, the Federal Board of Revenue, the Securities and Exchange Commission of Pakistan and the Speaker of the National Assembly to inquire into or investigate the matter or to refer the matter to the Election Commission of Pakistan against respondent No. 1 [Nawaz Sharif].”

3. He said the court took up the case so a PM could not have a ‘field day’

“If this Court stops short of attending to the issue merely because it involves some disputed or intricate questions of fact then the message being sent would be that if a powerful and experienced Prime Minister of the country appoints his loyalists as heads of all the relevant institutions in the country which can inquire into or investigate the allegations of corruption, then a brazen blocking of such inquiry or investigation by such loyalists would practically render the Prime Minister immune from touchability or accountability and that surely would be nothing short of a disaster.”

“It is said that how highsoever you may be the law is above you. It is in such spirit of democracy, accountability and rule of law that this Court would not give a Prime Minister/Chief Executive of the Federation a field day merely because no other remedy is available or practicable to inquire into the allegations of corruption, etc. leveled against him or where such inquiry involves ascertainment of some facts.”

4. Khosa said Nawaz was not truthful

“It had not been disclosed as to how and through which resources the respondent’s father had established 6 new factories within 18 months of nationalization of Ittefaq Foundries, especially when statedly the entire savings of the respondent’s elders stood obliterated and wiped out."

“It is also strikingly noticeable that in that speech there was no mention whatsoever of setting up of any factory in Dubai which was sold in 1980. That speech also failed to disclose any detail of the funds available or procured for setting up of the factory near Makkah.”

“It was maintained in that speech that the funds generated through sale of the factory near Makkah were utilized by respondent No. 1’s sons namely Mr. Hassan Nawaz Sharif and Mr. Hussain Nawaz Sharif for setting up their business. It had been maintained by respondent No. 1 that through that speech he had made the entire background of his family’s business clear to his countrymen and that he had informed them about all the important stages of the family’s journey in business. “

“He had proclaimed that what he had disclosed were the “true” facts. I have, however, found that that was not the case and unfortunately respondent No. 1 had economized with the truth on that occasion.”

"Even a layman can appreciate, and one does not have to be a lawman to conclude, that what had been told to the nation, the National Assembly or even this Court about how the relevant properties in London had been acquired was not the truth. A pedestrian in Pakistan Chowk, Dera Ghazi Khan (a counterpart of Lord Denning’s man on the Clapham omnibus) may not have any difficulty in reaching that conclusion."

5. How were London properties acquired?

“There was absolutely no explanation offered in that speech as to how the relevant four properties in London had been acquired and respondent No. 1 had never stated on that occasion that he had no concern with the ownership of those properties or that no money belonging to him had been utilized for their acquisition.

"On April 22, 2016 respondent No. 1 addressed the nation again on the subject on radio and television but that speech did not contain any specific information about the resources or assets of the respondent and his family. Again, no explanation whatsoever was offered in that speech as to how the properties in London had been acquired."

6. Dubai factory was not mentioned in PM’s first or second address

"On May 16, 2016 respondent No. 1 read out a written speech in the National Assembly which was broadcast and telecast live on radio and television and this is what he said on that occasion: [4:19] A careful reading of that speech made by respondent No. 1 shows that it was for the first time that any mention had been made therein by the respondent to setting up and sale of a factory in Dubai as no mention of the same had been made by the respondent in his first or second address to the nation on the issue."

"It had been stated in the latest speech that in the year 1999 the entire record of the family’s business had been taken away by the authorities and the same had not been returned despite repeated requests but later on in the same speech respondent No. 1 had categorically stated that the entire record and documents pertaining to the Dubai and Jeddah factories was available and that such record could be produced before any committee or forum!"

7. Factory in Makkah or Jeddah, asks Khosa

“The first address to the nation mentioned setting up of a steel factory near Makkah but the speech made in the National Assembly referred to a steel factory in Jeddah. In the first address to the nation respondent No. 1 had claimed that the proceeds of sale of the steel factory near Makkah had been utilized by his two sons for setting up their business but in the speech made in the National Assembly he had changed his earlier stance and had maintained that the generated resources had been utilized for “purchase” of the flats in London."

"Even in that speech respondent No. 1 had never stated that he had no concern with the ownership of those properties or that no money belonging to him had been utilized for their acquisition.”

8. PM said the record was available, his lawyer said it wasn’t

"The story about “purchase” of the relevant properties in London had taken yet another turn at a subsequent stage. 78. Although it had specifically and repeatedly been said by respondent No. 1 on the floor of the National Assembly in the above mentioned speech that the entire record relevant to the setting up and sale of the factories in Dubai and Jeddah was available and would be produced whenever required yet when this Court required Mr. Salman Aslam Butt, Sr. ASC, the then learned counsel for respondent No. 1, on December 07, 2016 to produce or show the said record he simply stated that no such record existed or was available and that the statement made by respondent No. 1 in the National Assembly in that respect was merely a “political statement”!"

"It may be pertinent to mention here that in the evening preceding the said stand taken by the learned counsel for respondent No. 1 before this Court an interview was telecast on Geo News television wherein Mr. Haroon Pasha, the chief financial advisor of respondent No. 1 and his family, had stated before the host namely Mr. Shahzeb Khanzada that the entire record about Dubai and Jeddah factories was available and that the said record had been handed over to respondent No. 1’s lawyers and now it was for those lawyers to present it before the Court."

9. Khosa ‘shocked’ by attempt to suppress facts

"In one of his interviews with Mr. Javed Chaudhry on Express News television on March 07, 2016 Mr. Hussain Nawaz Sharif, respondent No. 7, had also categorically maintained that the entire record pertaining to acquisition of the four properties in London was available with the family and the same would be produced before any court looking into the matter. Such state of affairs has been found by me to be nothing but shocking as it tends to be an attempt to suppress the relevant facts and the truth and to mislead the Court. Mr. Haroon Pasha and Mr. Hussain Nawaz Sharif have never denied or contradicted the contents of the above mentioned interviews."

"There may be many definitions of the word ‘honest’ but deliberate withholding or suppression of truth is not one of them and the same is in fact an antithesis of honesty. I am, therefore, constrained to declare that respondent No. 1 has not been honest to the nation, to the representatives of the nation in the National Assembly and to this Court in the matter of explaining possession and acquisition of the relevant four properties in London."

10. Story about Qatar business was an afterthought

"Even the story about investment in real estate business in Qatar and the subsequent settlement of that business was also, thus, nothing but an afterthought. It may also be pertinent to mention here that in his three speeches mentioned above and also in his concise statements submitted before this Court respondent No. 1 had never said a word about any investment by his father in any real estate business in Qatar and funds generated through a settlement of that investment being utilized for acquisition of the properties in London whereas through their concise statements submitted before this Court by his children that was the only source of funds through which the said properties had been acquired in the name of respondent No. 7 namely Mr. Hussain Nawaz Sharif."

11. Hassan Nawaz was rolling in money: Khosa

"All those businesses of respondent No. 8 (Hassan Nawaz) were going on and the said respondent was rolling in money in England for many years before June 2005 when, according to respondent No. 1 (Nawaz Sharif), the sale proceeds of the factory in Jeddah had been given to his sons for setting up their business. Nothing has been produced by respondent No. 1 before this Court to rebut the above mentioned documents based upon the British public record."

12. Story about Al-Thani family lost credibility

"That story about investment in the real estate business of Al-Thani family in Qatar has taken many turns in this case and has, thus, lost its credibility. In their first concise statement jointly filed by respondent No. 1’s children they had never mentioned that story."

"In their subsequent concise statements they adopted that story as their only story. However, in their last Joint and Further Concise Statement (Civil Miscellaneous Application No. 432 of 2017 filed on January 23, 2017) the sons of respondent No. 1 gave the story another twist. The previous story was about an “investment” made by late Mian Muhammad Sharif in the real estate business of Al-Thani family in Qatar but through their last story advanced through the above mentioned concise statement it was maintained by respondent No. 1’s sons that the proceeds of sale of the factory in Dubai (12 million Dirhams) had been “placed” with Sheikh Jassim Bin Jaber Al-Thani who “retained” the amount with an assurance of just and equitable return."

"According to the latest story there was no investment involved in the matter and the services of a member of Al-Thani family of Qatar had been utilized only for parking of the relevant amount with him, probably as a bank!"

"It appears that close friendship between Al-Thani family of Qatar and respondent No. 1 and his family has stood the test of time. It is proverbial that a friend in need is a friend indeed. Being a foreign dignitary Mr. Hamad Bin Jassim Bin Jaber Al-Thani is held by me in high esteem yet the information about him available on the Internet is unfortunately quite uncharitable."

13. Nawaz and is family have been nothing but evasive: Khosa

"On the basis of the discussion made in the earlier part of this judgment the explanations advanced by respondent No. 1 in respect of the four properties in London and even in respect of his and his family’s businesses and resources have been found by me to be nothing but evasive and the statements made by him in that regard have appeared to me to be contradictory to each other. The explanations advanced by him have also been found by me to have remained utterly unproved through any independent evidence or material and, hence, the same were quite likely to be untrue. Even the children of respondent No. 1 have not been able to bring anything on the record to show that the explanations advanced by respondent No. 1 were or could be true and correct.

.https://www.dawn.com/news/1328158/
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

CPEC - Watch-out ! No Free lunch

$
0
0
Image result for cpec map

Train to China


THERE is a fear lurking in the shadows of CPEC that a time will soon come when the Chinese will start dictating terms and priorities rather than negotiating them. As an increasing number of Chinese enterprises acquire stakes in Pakistan’s economy, and as the government takes out more and more loans from Chinese state-owned banks for balance of payments support, the space to negotiate and protect our own interests diminishes. Perhaps we have seen a glimpse of what this entails in the recent discussions around the financing arrangements for the $8bn project for the Peshawar-Karachi railway line, when the Chinese insisted they would not share the project with the Asian Development Bank and wanted to implement it on their own. According to Ahsan Iqbal, the minister for planning and development, who oversaw the negotiations, the Chinese “strongly argued that two-sourced financing would create problems and the project would suffer”. So the government gave in to the ‘strongly argued’ position.
If the merits of single-source financing for this project had been evident, it would not have been double-sourced to begin with — and would certainly not have to be ‘strongly argued’ by anyone. Whatever the merits of the two options, the fact that the Chinese were able to push for full control of the project, and prevail, shows that the power of the government to stand its own ground in any engagement is weakening. This is worrisome because the long-term plan for CPEC envisages far greater entry of Chinese capital, both private and state-owned, into almost every sector of Pakistan’s economy, than what most people realise. The amount of leverage that the Chinese will acquire over Pakistan in the years to come will grow exponentially, and there will be many more moments when positions that are ‘strongly argued’ will need to be equally strongly negotiated in order to protect our own enterprises and economic priorities.
So, naturally, all eyes are watching carefully to see how the early phase of this massive undertaking rolls out. The government needs to do more to assure nervous minds that Pakistan’s interests will be strongly pursued as well, and where necessary, the engagement can be halted if it is not perceived to be putting Pakistan’s interests first. Thus far, that assurance has been absent, and we are moving forward with little to no public awareness about what exactly we are getting entangled in. One way for the government to reassure the country that the growing engagement will safeguard Pakistan’s interests is to make the long-term plan public, especially now that we are told it has been finalised. Putting public approval behind itself is the best way for the government to strengthen its own negotiating position. Let CPEC be the train to prosperity for both countries, and let them ride it together.
Published in Dawn, April 30th, 2017
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Islam and modernism in Pakistan

$
0
0
Illustration by Abro

The idea of ‘Islamic Modernism’ held sway in Pakistan until the mid-1970s but disappeared soon after. In Questioning the Authority of the Past historian Dr Ali Usman Qasimi explains how from 1947 till about the mid-1970s, the state and subsequent governments consciously kept the ulema away from directly influencing government legislation.

Usmani adds that this was not due to the fact that those who ran the state and governments between the mentioned years were secular. Instead, their idea of faith and its role in the formation of Pakistani nationalism was different from those held by the ulema and the clerics.

The civil-military establishment which was at the helm of state and government affairs from 1947 till the early 1970s was an extension of the idea of faith and Muslim nationalism developed and evolved by the likes of Sir Syed Ahmad Khan, Syed Amir Ali, Chiragh Ali, Ahmaduddin Amritsari, Muhammad Iqbal, Ghulam Ahmad Parvez, Dr Khalifa Abdul Hakim, and to a certain extent, Dr Fazalur Rehman Malik.

These scholars were the main shapers of ‘Islamic Modernism’ in South Asia. As an idea it encouraged the acquirement of universal sciences and philosophies to facilitate a rational, practical and informed reading of Islam’s holy scriptures beyond the ‘dated’ interpretations penned by ancient ulema or contemporary clerics.

From the mid-19th to the mid-20th centuries, these scholars, through hefty scholarly treatises and philosophical discourses, urged the snatching away of matters of faith from the clutches of clerics and ‘dogmatic ulema.’

They advocated addressing the faith’s ‘stagnant’ and ‘retrogressive’ state through modern scholarly, scientific and cultural means so that its ‘true form’ (which was vibrant and supple) could be brought back to life. To them this recouped form was to become the engine empowering the rejuvenation of South Asia’s Muslims into becoming an enlightened and dynamic polity.

The founders of Pakistan led by Muhammad Ali Jinnah were very much a part and parcel of this narrative and of the evolving tradition of Islamic Modernism in South Asia.

For example, just a few months after the country’s creation in August 1947, Jinnah green-lighted the creation of the Institute for the Reconstruction of Islam (IRI) headed by the celebrated Jewish-journalist-turned-Muslim-scholar, Muhammad Asad.


Ishtiaq Ahmad in 1987’s The Concept of Islamic State quotes IRI’s first scholarly initiative as a detailed treatise which suggested that “no specific form of government had been prescribed by Muslim scriptures and it was up to the Muslims of every age to agree on one that suits their conditions.” The report emphasised that no matter what form of government Muslims decide to enact, it needed to be run on one of the central Islamic principles of “socio-economic justice.”

Even though the 1949 Objectives Resolution passed by the Constituent Assembly declared that Pakistan was to become an ‘Islamic Republic’, Usmani reminds his readers that the Resolution did not envision any special authority for the ulema.

In 1950, the government set up the Iqbal Academy whose first initiative was a monograph Iqbal and the Mullah authored by Dr Khalifa Hakim. The monograph pointed out the differences of the idea of faith advocated by Iqbal and those held by the “reactionary clerics.” The monograph was also distributed to the people by the military during its operation against the 1953 anti-Ahmadiyya riots in the Punjab.

The Pakistani nationalist narrative driven by the precepts of Islamic Modernism peaked in the 1960s during the Ayub Khan regime (1958-69). After taking power, he wrote in his diary (segments of which were published in his 1967 autobiography), that to make Islam a force of progress and unity (in Pakistan), it needed to be rescued from the influence of clerics and “retrogressive ulema.”

Though till then the ulema did not have any significant influence on legislative matters, Ayub further neutralised them by bringing all mosques and shrines under state control. This move was suggested and encouraged by Dr Javed Iqbal, the scholar-son of Allama Iqbal.

Then, on the advice of Dr Fazalur Rehman Malik, Ayub also attempted to get a single, government-approved sermon authored for Friday prayers which was to be read in all mosques.

Through some anti-traditionalist legislation and advocacy institutions that were navigated by staunch Islamic Modernists, Ayub continued to frustrate all attempts by ulema and clerics to enter the mainstream of policy formation.

In 1967, the regime launched an ambitious project to “impart modern education to the clerics so they could become more productive members of the society.”

In the late 1960s, with the economy sliding, Ayub began facing severe opposition from right-wing religious groups as well as from the left. In 1969, he was forced out by a largely left-oriented uprising.

The Islamic Modernist narrative lingered on until it began to erode during the Z.A. Bhutto regime’s populist rightward shift in the mid-1970s. It was then entirely discarded by the Zia dictatorship.

The more ulema-centred narrative and paradigm created by Zia lasted beyond his demise in 1988. Presented and legislated as an alternative to the floundering idea of Islamic Modernism, it eventually mutated and became a highly polarising and even anarchic entity, eventually plunging the state and society into an exhaustive quagmire.

One now wonders, would the state of the country have been better today had Islamic Modernism been allowed to evolve beyond the 1970s?

Smokers' corner: Curbing the mullah - By NADEEM F. PARACHA
https://www.dawn.com/news/1329822/smokers-corner-curbing-the-mullah
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Dawn Leaks - Options ڈان لیکس

$
0
0
Image result for ‫ڈان لیکس‬‎

20170501_134705.png


DAWN LEAKS- A SOLUTION
Dawn leaks is an important National Security issue. PM house is involved in this security breach. In Westminster style parliamentary democracy PM and his cabinet are are collectively responsible for the the important matters. PM cannot be absolved for his role and responsibility in this matter. All indicators point to his daughter acting as de-facto deputy PM/ PM House Chief of Staff without any official designation. This is itself breach and violation of rule of business and constitution. She does not bear responsibility for any misdeeds while exercising control upon government officials. In Dawn leaks, she is reported behind the anti Army campaign, with tacit approval of her father the PM. [Though himself, a product of a dictator Zial ul Haq, his malice towards military is well known after 1999 coup.His pro India tilt is an open secret]  The other staff members just seem to be following her orders, their motive in such an activity bears no benefit to them except pleasure of PM / daughter of PM, yet they failed to refuse to be part of such an illegal, anti state plot.  They are being sacrificed as scapegoats.


It was disclosed by Mr.Haroon Rasheed, a credible senior journalist that Army had already granted maximum concession by exonerating Maryam Nawaz from this heinous crime. So far it has not been denied by Army. If true this is outrageous. She is being groomed/projected as future heiress to the throne (in sham democracy). If PM or she is a security threat, sparing them now will be greatest disfavour to Pakistan. Next time they will do it cleverly, not to be caught. Sparing them would be  betrayal with the blood of martyrs, sacrificing their lives to save the people of Pakistan from the enemies.


Keeping in view the seriousness of the matter following is proposed:
1. There are two powerful parties; (a) Army, the accuser. (b) The accused - PM and his aides, including his daughter. There has to be a 3rd independent party/forum to conduct independent investigations and fair trial. Supreme Court is the only such institution which can do it as as being done in Panama Case.[Either the matter is taken up officially by government/army or else supreme court takes suo moto action.]


2. PM and all the accused be suspended (by supreme court) till completion of investigations.


3.All responsible persons, irrespective of their status be awarded strict, highest punishment, no leniency, it will be deterrent for future leaders.


4.System of security be developed so that in future, persons with dubious or doubtful loyalties are not  allowed to occupy highest state offices..
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

ایک ہی راستہ

کیا یہ بہتر نہیں کہ ڈان لیکس کے معاملے کو فوج یا وزیر اعظم ہائوس کے سپرد کرنے کی بجائے قومی سلامتی کا معاملہ سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا فوری نوٹس لے۔ اس کام میں جتنی بھی تاخیر ہو گی ،ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ دشمن اس وقت سر چڑھ کر بول نہیں رہا بلکہ کسی خطرناک قسم کی کارروائی کیلئے پر تول رہا ہے ۔ سرحد پر وہ شرارتیں کرنے سے باز نہیں آ رہا۔ کشمیر میں ظلم ڈھانے کا اس نے نیا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ایسے میں داخلی مسائل جلد از جلد حل کئے جانے چاہئیں۔
یہ ایسا معاملہ ہے جس میں افواج پاکستان بطور مدعی اور وزیر اعظم ہائوس مدعا علیہ ہیں۔ جہاں بھی پارلیمانی طرز حکومت ہوتا ہے وہاں معاملات حل کرنا کسی ایک ادارے یا شخص کی نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اس لئے بہتر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ڈان لیکس کا تمام ریکارڈ اپنے قبضے میں لیتے ہوئے سات دن کے اندر اندر ا سکی بلا تعطل سماعت شروع کر دے۔اس معاملے کی ثانوی رپورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو ابتدائی رپورٹ بھی سامنے رکھتے ہوئے اپنی کارروائی شروع کرنی ہو گی جس کیلئے پندرہ دن کی مدت بھی بہت زیا دہ ہے۔
اگر سپریم کورٹ ایسا نہیں کرتی کہ خود ہی اس پر سو موٹو لے توپھر کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ فوج یا وزیر اعظم ہائوس دونوں میں سے کوئی ایک اسے سپریم کورٹ لے جائے یا سپریم کورٹ جیسا کہ پہلے کہا ہے ،اس پر سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے پانامہ کی روایات سے ہٹ کر تحقیقات کرے اور یہی وہ آخری طریقہ ہے جس سے یہ معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتاہے۔
دنیا میں کسی بھی مظلوم کی فریاد سننے والے تمام دروازے جب بند ہوجاتے ہیں تو پھر ایک ہی دروازہ نظر آتا ہے اور وہ ہے اﷲ کی ذات کا دروازہ جو کبھی بھی کسی کیلئے بند نہیں ہوتا ،جہاں ہر کسی کو انصاف ہی ملتا ہے صرف انصاف۔۔۔ اسی طرح زمینی عدالتوں میں سب سے محترم اور معتبر سپریم کورٹ ہے جہاں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کے دلوں میں خوف خدا موجود ہوتا ہے اور وہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر یہ کبھی بھی نہیں بھولتے کہ اگر کسی سائل کوعدالت سے انصاف نہ ملا تو پھر ایک دن ایسا آنے والا ہے جب اس کا یہی مقدمہ اﷲ کی عدالت میں پیش ہو گا ، جہاں دنیا میں اس کے ساتھ انصاف نہ کرنے والے ایک ایک شخص کو مجرم گردانتے ہوئے اس کے ہر عمل کی سزا دی جائے گی ۔ فرمان الٰہی ہے کہ''تم جو کچھ ابھی اپنے دلوں میں سوچ رہے ہوتے ہو اﷲ اس سے بھی واقف ہوتا ہے‘‘...ایسے ہی لوگوں کو دنیا میں خبردار کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سورۃ الانبیا کی آیت اٹھارہ میں فرماتا ہے ''ہم حق کو باطل پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ باطل کا سر توڑدیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت مٹ جاتا ہے‘‘۔
ڈان لیکس پر زیا دہ بحث کی ضرورت ہی نہیں صرف ایک نکتہ ہی سامنے رکھنا ہو گا صرف ایک سوال کا جواب ہی دینا ہو گا''سیرل المیڈا کی دی جانے والی یہ خبر کس نے اور کیوں پلانٹ کی ؟اس میں جس کا بھی ہاتھ ہے اسے سامنے لایا جانا چاہئے اور اگر جیسا کہ اب سوشل میڈیا پر پلانٹ کیا جا رہا ہے کہ اس خبر میں کوئی بھی وطن دشمنی والی بات نہیں، اس خبر سے کسی بھی قسم کے ملکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچا تو پھر...جو کوئی بھی ہے اسے کھل کر سامنے آ جا نا چاہئے اور اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنا چاہئے ''ہاں اس خبر کو میں نے پلانٹ کیا ہے یا کرایا ہے اور میں نے ہی المیڈا کو کہہ کراسے شائع کرایا ہے‘‘... خوف کس بات کا ؟
اداروں میں بڑھتی ہوئی دوریوں سے حالات ایک بار پھر12 اکتوبر1999 کی جانب بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔نتیجہ کیا نکلا تھا ،جنرل مشرف کی صورت میں سب کے سامنے ہے ۔ اﷲ نہ کرے کہ ایک بار پھر میڈیا پرکہا جانے لگے کہ لو جناب قاعدے قانون اور جمہوریت کے سب سے بڑے حامی جرنیل کے ساتھ بھی نباہ نہیں ہو سکا۔
اس و قت سوشل میڈیا پر درجنوں کی تعداد میں ''مراعات یافتہ اور ہدایت یافتہ‘‘ گروپ اداروں کو بے نقط سنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ان کے اصلی اور فرضی نام اس طرح از بر ہوچکے ہیں ، ایک ایک چہرے کے پیچھے کئی کئی چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ سول حکومت کی فوج پر بالا دستی کے نام پر جمہوری اور آئینی حق غصب کرنے کے الزامات کی سنگباری کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم ہائوس کیلئے سب سے بہتر آپشن ایک ہی ہے کہ ڈان لیکس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں، اس کے تمام ذمہ داروں کو مروجہ قانون کے شکنجے میں لائے اور اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس میں وہ خود یا ان کی کوئی قریبی اہم شخصیت ملوث ہے تو وہ قوم سے معافی مانگتے ہوئے اپنے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہو جائیں بصورت دیگراس معاملے کو سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا جائے تاکہ سچ اور جھوٹ سامنے آ سکے!!
منیر بلوچ ، دنیا ، 4 میئ 2017
..............................................................

ڈان لیکس کا ایشو اپنے فطری انجام تک پہنچے گا
عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈان لیکس کا معاملہ بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت نے اسے ایزی لینے کی کوشش کی،خفت مقدر بنی۔حیرت ہے کہ حکمران جماعت کے تھنک ٹینک کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ اس طرح کے معاملات مٹی پاﺅ ٹائپ سٹائل میں نمٹائے نہیں جاتے۔یہ انتہائی سنجیدہ اور گمبھیر مسئلہ ہے۔ کسی شخصیت کے جانے یا آنے سے اس کی حساسیت اور گمبھیرتامیں فرق نہیں پڑتا۔ ڈان لیکس کے ایشو کواپنے فطری انجام تک پہنچانا ہوگا۔ اس کے بغیر یہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مصنوعی کوششیں مزید بگاڑ پیدا کریں گی۔
حکمران جماعت کے حامیوں اور ہم خیال اخبارنویسوں کویہ کریڈٹ دینا بنتا ہے کہ انہوںنے اپنی تقریروں ، تحریروں کے ذریعے اس قدر گرد اڑائی کہ اصل نکتہ اس کے تلے دب گیا۔ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن کے حامی بڑے منظم انداز میں حرکت کرتے اورضرورت پڑنے پر ایک بھرپور مہم چلادیتے ہیں۔ حقیقت سے توجہ ہٹانے کے لئے غیر متعلق سوالات اٹھائے جاتے ، بحث کو دانستہ اس قدر پھیلا دیا جاتا ہے کہ وہ نتیجہ خیز نہ رہے۔مثلاً ڈان لیکس کے معاملے پر آج کل یہ حلقے بڑی معصومیت سے دو تین سوالات اٹھارہے ہیں۔ یہ کہا جاتاہے کہ ڈان لیکس میں غلط کیا تھا؟ کون سی غلط خبر لیک ہوئی، یا پھر اس پر زیادہ زور دیا جارہا ہے کہ آخر اس معاملے میں کیا کیا جائے، وزیروں کو ہٹانے سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔
بات بڑی سادہ ہے، اسے سمجھنا مشکل نہیں۔اس خبر کے دو زاویے ہیں۔ ایک کا تعلق ڈان اخبار اور صحافتی اقدار سے ہے۔ایشو کا دوسرا زاویہ حکومت اور کابینہ سے متعلق ہے۔پہلے اخبار کے معاملے کو دیکھتے ہیں۔
ڈان میں چھپنے والی سرل المےیڈا کی سٹوری غلط تھی یا درست ۔ اگر غلط تھی جیسا کہ حکومت اور ادارے کہتے رہے ہیںاور منطقی طور پر بھی یہ غلط لگتی ہے تو یہ نہایت سنگین ایشو ہے۔ کسی بھی اخبار یا چینل میں ایسی حساس نوعیت کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔ صحافت کی وادی پرخار میں دوعشروں سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد اس کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ جہاں کچھ خبریں میڈیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں بہت سی خبریں میڈیا پر چھپوانے یا چلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔کوئی صحافی ہو یا میڈیا ہاﺅس، ہر کوئی استعمال ہونے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔آزادی صحافت کو زیادہ نقصان غیرذمہ دارانہ صحافتی طرز عمل سے پہنچتا ہے۔
ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ یہ خبردرست تھی ، تب بھی اس قسم کی نیشنل سکیورٹی سے متعلق خبریں نہایت احتیاط سے ڈیل کی جاتی ہیں۔ جس انداز میں اسے چھاپا گیا وہ درست نہیں تھا۔ سٹوری کی کنسٹرکشن ٹھیک نہیں تھی، ایسی قطعیت کے ساتھ ایسی خبریں نہیں دی جاتیں، جس
میں نام بھی واضح ہوں اور ان کے مکالمے بھی، گویا رپورٹر نے میٹنگ میں بیٹھ کر اسے رپورٹ کیا ہو۔ ہم نے اپنے سینئرز سے دو باتیں
سیکھیں، ایک ایسے انداز میں خبر دی جائے یا لکھا جائے کہ ابلاغ بین السطور(Between The Lines)ہوجائے اور کوئی اعتراض بھی نہ کر پائے، دوسرا یہ کہ وہ نہ چھاپا جائے، جسے بعد میں ثابت نہ کیا جا سکے۔ ایسی خبر جس میں رپورٹر خود یہ لکھ رہا ہے کہ جس کسی سے رابطہ
کیا گیا، اس نے تصدیق نہیں کی۔ جب کوئی کنفرم کرنے پر تیار ہی نہیں تو بھیا پھر خبر کیوں دے رہے ہو؟ یہ آزادی صحافت کا ایشو ہے ہی نہیں بلکہ یہ بے لگام ، بے مہار صحافت اور خواہشات سے مغلوب ایکOver-ambitious صحافی کی انفرادی کارروائی ہے۔ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا بنتا تھا۔ کل کو کسی اخبار یا چینل میں پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کوئی بے بنیاد سٹوری چل جائے اور پھر معلوم ہو کہ اس کی بنیاد پردنیا میں پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ بن گئی ۔
اس معاملے کا دوسرا زاویہ حکومت اور کابینہ سے ہے۔ ڈان لیکس کے معاملے پر بنیادی سوال یہ تھا کہ ایک ٹاپ سکیورٹی اجلاس کی خبر کس نے باہر لیک کی؟ یہ اہم ترین نکتہ تھا۔ خبر بھی اس قدر تفصیلی اور جامع کہ یوں لگے جیسے اجلاس کے منٹس فراہم کئے گئے ہیں۔ ڈان لیکس کے انکوائری بورڈ کو تمام تر تحقیق اسی نکتے کے گرد کرنی چاہیے تھی کہ آخر وہ کون تھا جس نے خبر لیک کی؟اگلا سوال یہ تھا کہ جو خبر لیک ہوئی ، وہ درست تھی یا غلط ؟ وزیراعظم نواز شریف سے لے کر مختلف وزراءنے واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ خبر غلط تھی اور ایسی کوئی بات اس اجلاس میں نہیں ہوئی۔ یہی موقف ہمارے سکیورٹی اداروں کا بھی ہے۔ ایسی صورت میں تواس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ اس سازشی شخص کو پکڑا جائے جس نے یہ خبر توڑ مروڑ کر ڈس انفارمیشن کے انداز میں لیک کی۔
انکوائری بورڈ کی سفارشات سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ یہ انکوائری بورڈ اپنے اہم ترین ایجنڈے میں کس حد تک کامیاب رہا۔ سردست جو کچھ سامنے آیا ، وہ بظاہر ایک نوٹیفکیشن کی صورت میں تھا، نہایت کمزور ، مٹی پاﺅ سٹائل میں دی جانے والی سفارشات۔ جس میں انتہائی سادگی اور معصومیت سے اخبار والا معاملہ تو اے پی این ایس کے سپرد کرنے کا کہا گیا ۔ گویا یہ سفارش کرنے والے واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اخباری مالکان کی یہ نمائندہ تنظیم اپنے ایک اہم ترین ممبر اخبار کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے گی؟دیگر سفارشات میں طارق فاطمی اور راﺅ تحسین کو ہٹانے کا کہا گیا۔ اصل نکتہ اس میں تھا ہی نہیں کہ وہ خبر کس نے لیک کی اور اس کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے؟ اس پر احتجاج تو بنتا تھا ، کیا بھی گیا۔ اگرچہ ضرورت سے زیادہ سخت الفاظ میں اورخاص کر” مسترد“ کا لفظ غیر ضروری طور پر استعمال کیا گیا۔اس سے منفی تاثر پیدا ہوا اورسوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اگر وہ ٹویٹ نہ کیا جاتا یا زیادہ سلیقے سے الفاظ منتخب کئے جاتے تو اس منفی ردعمل کی نوبت ہی نہ آتی ۔یہ بات مگر سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ نوٹیفیکیشن یا جو کچھ بھی تھا، وہ کس لئے جاری کیا گیا؟ وزیرداخلہ کا فرمان ہے کہ یہ نوٹی فکیشن تھا ہی نہیں اور دراصل مزید کارروائی کے لئے یہ وزارت داخلہ کو بھیجا گیا۔ سوال تو یہ ہے کہ چاہے وزارت داخلہ ہی کو بھیجا گیا ،کیا انکوائری بورڈ کی تمام تر سفارشات یہی تھیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر باقی سفارشات مزید کارروائی کے لئے کیا وزارت تعلیم کو بھیجی گئی ؟ یا پھر وزارت ماحولیات وغیرہ سے رائے مانگی گئی تھی؟اگر کوئی یہ رائے قائم کر لے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہی اصل نوٹیفکیشن تھا اور شدید ردعمل کے پیش نظر بعد میں پسپائی اختیار کی گئی۔
ایک اور اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ جس کسی نے یہ خبر لیک کی، اس نے بڑے منظم انداز میں پلاننگ کی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی بھی صحافی کو اس قدر اہم خبر ملے گی تو وہ چھاپنے سے پہلے اسے کنفرم کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ٹاپ سکیورٹی سے متعلق خبرمتعلقہ حکام سے چیک کئے بغیر شائع کی جائے۔اس لئے یہ تو یقینی تھا کہ رپورٹر اس خبر کو کنفرم کرنے کے لئے وزیراطلاعات، پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور دیگر اہم حکام سے فون یا ٹیکسٹ کی صورت میں رابطہ ضرور کرے گا۔ انکوائری بورڈ کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے سے حتمی بات کی جاسکتی ہے، مگر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں نہایت ہوشیاری سے کام لیا گیا۔رپورٹر یا اخبار نے ایک سے زیادہ بار متعلقہ حکام سے رابطہ کیا ،مگر انہوں نے خبر کی تصدیق تو نہیں کی(ظاہر ہے ایسی تباہ کن غلطی تو وہ نہیں کر سکتے تھے کہ پھر یہ تصدیق ریکارڈ پر آ جاتی)، مگر اس کی پرزور تردید بھی نہیں کی۔ لگتا ہے بعض لوگوں نے اس میسج یا ای میل کا جواب نہیں دیا ، یعنی نظر انداز کر دیا ۔ ڈان لیکس کے بعد جو بھی کارروائی ہوئی، وہ اسی بنیاد پر ہوئی کہ ان لوگوں نے علم ہوجانے کے بعد بھی خبر رکوانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ خبر کی حساسیت اور اہمیت کو جانتے ہوئے انہیں اسے رکوانے کی کوشش کرنا چاہیے تھی۔ کوئی چاہے تو اسے دانستہ خاموشی یا عدم فعالیت قرار دے سکتا ہے۔  
ویسے بھی جس جس کے خلاف کارروائی کی گئی، اس کا کیا فائدہ ہوا؟ایک صاحب نے عدالت میں جانے کا اعلان کیا اور خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ اس کا مشورہ خود حکومت نے دیا۔ ایک صاحب نے وزارت خارجہ کے افسران کے نام ایک جذباتی خط لکھا جس میں اپنی خدمات کے گیت گائے اور برطرفی کو ظلم قرار دیا۔ پرویز رشید صاحب جن سے وزارت لی گئی، وہ خود کو عظیم جمہوری شہید کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔گزشتہ روزآنجناب نے ازراہ تمسخر فرمایا کہ خبر رکوانا وزیر اطلاعات کا کام نہیں ،اگر ایسا ہے تو اس کے لئے یونیورسٹیوں کو نیا کورس شروع کرنا چاہیے۔ جناب پرویز رشید کی حس مزاح قابل رشک ہے، مگر صحافی اداروں میں کام کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کس جنونی انداز سے روزانہ محکمہ اطلاعات کے افسران اور وزراءمختلف خبریں رکواتے اورحکومت کے حق میں جانے والی خبریں نمایاں کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ پرویز رشید صاحب کا دور بھی سب کے سامنے ہے، وہ جو جو کچھ کرتے رہے، کسی سے چھپا ہوا نہیں ، اتنی معصومیت اوربھولپن انہیں زیب نہیں دیتا۔
 بات صاف ہے، انکوائری بورڈ کابنیادی کام اس اصل مجرم کی نشاندہی کرنا تھاجس نے خبر لیک کی۔ اگر بورڈ یہ معلوم کرنے میں ناکام رہا تو افسوسناک ہے۔اس کی باقی سفارشات پھر ازخود صفر ہوجاتی ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ ڈان لیکس کے ایشو کواپنے فطری انجام تک پہنچانا ہوگا۔ اس کے بغیر یہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مصنوعی کوششیں مزید بگاڑ پیدا کریں گی۔
                              
Aamir Hashim Khakwani, News92



~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

نظریہ پاکستان اور قرارداد مقاصد

$
0
0






نظریہ پاکستان سے مراد یہ تصور ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان، ہندوؤں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح اساس دین اسلام ہے اور دوسرے سب مذاہب سے بالکل مختلف ہے، مسلمانوں کا طریق عبادت کلچر اور روایات ہندوؤں کے طریق عبادت، کلچر اور روایات سے بالکل مختلف ہے۔ اسی نظریہ کو دو قومی نظریہ بھی کہتے ہیں جس کی بنیاد پر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ پاکستان کا مطلب کیا : لا الہ الا اللہ
خیال رہے کہ اسلام میں ملایت یا پوپ کا تصور نہیں-
پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا جس کے لیے مسلمانان ہند نے قائد اعظم محمد علی جناح کے قیادت اور علامہ محمد اقبال کی نظریاتی رہنمائی اورعظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا تاکہ مسلمان آزادی سے اسلام کے اصولوں کی بنیاد پر، امن و بھائی چارہ سے جدید ترقی یافتہ قوم کی زندگی گزار سکیں، اسلام اقلیتیوں کو تحفظ اور آزادی دیتا ہے- قائد اعظم کے مد نظر میثاق مدینہ کا ماڈل تھا- افسوس آج عوام کو سیکولرازم کے نام سے گمراہ کیا جا رہا ہے- "قرارداد مقاصد"جو  اور  1956 کے آیین اور موجودہ 1973 کے آیین کا حصہ ہے اس کی ضمانت اور ثبوت ہے- پاکستان مخالف لوگ اقتدار اور میڈیا پر اثر انداز ہو کر پاکستان کی اساس کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں-
کہا جا رہا ہے کہ ہندو اور ہمارا کلچر ایک ہے، زبان ایک ہے، نسل ایک ہے، بس ایک بارڈر کی مصنوعی لائن ہم کو جدا کرتی ہے، اس کو مٹا دو- ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم، قتل و غارتجانوروں سے بدتر سلوک ان کو نظر نہیں آتا، عقل پر پردے پڑ چکے ہیں-
عوام ایسی ہر ناپاک سازش کو ناکام بنا دیں گے- ضرورت ہے کے اس معاملہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جاینے-
نظریہ پاکستان اور قرارداد مقاصد پر تنقید کو قاںونی طور پر جرم قرار دے دیا جایے-
اس سلسلے میں مبہم نہیں، واضح قانون سازی کی جایے- تمام محب وطن پاکستانیوں کو میڈیا اور سیاسی پارٹیوں پر دباؤ pressure ڈالنا ہے-
یورپ میں دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے ہاتھ ٦ لاکھ یہودیوں کے قتل عام (holocaust denial) کا انکار ، قابل سزا جرم ہے، تو پاکستان میں اس کے بنیادی نظریے کی تنقید جرم کیوں نہیں ہو سکتی؟
.........................................

نظریہ پاکستان اور قرارداد مقاصد
نظریہ پاکستان ، دو قومی نظریہ - مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم باب
بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان پہلے دن سے ایک نظریاتی امت ہیں۔ اس اُمت کی بنیاد رنگ پر نہیں، نسل پرنہیں، زبان پر نہیں ، خطے پر نہیں ہے، مفادات پر بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ مشترکہ تاریخ پر بھی نہیں ہے،بلکہ اس کی بنیاد عقیدے اور ایمان پر ہے۔ اس کی بنیاد نظریے پر ہے، جوقرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔ یہی ہماری شناخت ہے مگر ہماری قیادتوں نے نہ صرف یہ کہ اس کا احترام نہیں کیا ہے، بلکہ عملاً اس سے انحراف بھی کیا ہے۔
برعظیم میں آنے والا پہلا مسلمان محمد بن قاسم نہیں تھا، بلکہ دورِ رسالت مآبؐ میں صحابۂ کرامؓ سندھ میں تشریف لائے تھے۔ ان کے بعد محمد بن قاسم آئے اور اسلامی حکمرانی قائم ہوئی۔ پھر شمال سے مسلمان آئے تو مسلمانوں کے اقتدار کا دور شروع ہوا۔
تاریخ کا کوئی بھی منصف مزاج طالب علم اور اسکالر یہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ برعظیم پاک و ہند کے پورے دور میں کبھی مسلمانوں نے اسلام دوسروں پر زبردستی مسلط کیا۔ یہی نہیں بلکہ ہندوئوں کے ذات پات کے نظام اور ستّی کے رواج سے شدید اختلاف اور انقباض کے باوجود اسے ختم کرنے کے لیے سرکاری طاقت کا استعمال کرنے سے اجتناب برتا اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا۔ زبردستی مذہب قبول کرنے کاکوئی تاریخی واقعہ نہیں ملتا۔ اورنگ زیب عالم گیر کے بارے میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ صریح تاریخی جھوٹ ہے۔ اس کی تردید خود بھارت کے غیرمسلم محققین نے کی اور کررہے ہیں۔
مسلمانوں نے اپنے تشخص اور اپنی اجتماعی زندگی کی بہتری کے لیے ادارے قائم کیے اور غیرمسلموں کو بھی پورا پورا موقع دیا کہ وہ  اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق کام کریں۔ صرف دعوت وتبلیغ سے برہمن ازم میں دراڑیں پڑیں اور لوگ اس کے چنگل سے نکل آئے۔علماے کرام اور صوفیاے عظّام نے اس سلسلے میں بڑی روشن اور تاب ناک خدمات انجام دیں۔ تاہم، مسلمانوں کی طرف سے کوئی واقعہ ظلم وجبر کا اس زمانے میں نہیں ملتا اور ریاستی قوت کے ذریعے کبھی اسلام کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک بھی تاریخ کا مطالعہ کریں مسلمانوں کے پورے دورِ حکمرانی میں ہندو مسلم فسادات کاکوئی تصور نہیں ملتا۔ بلاشبہہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں، مگر اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی وسعت ِ قلبی اور   حُسنِ سلوک کے باعث مسلمانوں کی فوج میں ہندو جرنیل اور ہندو سپاہی بھی رہے۔ مسلمان سلاطین کی حکومتوں، وزارتوں اور انتظامیہ میں بھی ہندو رہے، کبھی کم اور کبھی زیادہ، لیکن ہندوئوں پر اعتماد کیا گیا اور بعض اوقات انھیں اہم ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں۔
ہندو مسلم اتحاد میں دراڑ
پہلی مرتبہ ۱۹ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ تذکرہ سامنے آنا شروع ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت سے برطانیہ نے آپس میں لڑانے کے لیے رسوخ پیدا کرلیا تھا۔ اس سے قبل ہم البیرونی کا سفرنامہ پڑھتے ہیں، جس میں اس نے بتایا ہے کہ ہندستان کے ہندوکیسے ہیں، بدھ مت کے پیروکار کیسے ہیں، مسلمان کیسے ہیں اور کس طرح باہم رہتے بستے ہیں؟ یہ ہماری تاریخ ہے جس میں ایک طرف مسلمانوں نے اپنی شناخت کو محفوظ کیا اور چارچاند لگائے ہیں، تو دوسری طرف دوسروں کی شناخت کی بھی حفاظت کی ہے۔ اس طرح ایک حقیقی تکثیری (Pluralistic) معاشرے کو تاریخ میں قائم کرکے روشن مثال پیش کی ہے۔
بلاشبہہ تاریخ میں نشیب و فراز کا ظہور ایک حقیقت ہے، اور جو لوگ اقتدارمیں رہے، ان میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی ۔ وہ بھی رہے ہیں جنھوں نے اسلام کانفاذ کیا ، اسلامی نظام کو ترویج دیا، اور وہ بھی رہے جنھوں نے اسلام سے اِعراض کیا اور اس کی تعلیم کو اور تاریخ کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن دو چیزیں مشترک اور محکم ہیں: ایک یہ کہ اپنی نظریاتی ، دینی اور تہذیبی شناخت کا تحفظ و ترقی، اور دوسرے یہ کہ اوروں کی تہذیب اور معاشرتی روایات کا احترام، اور دین کے معاملے میں جبر سے اجتناب۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بیرونی قوت نے جب کسی ملک پر قبضہ کیا اور وہاں حکمرانی کرنے کے بعد کسی وجہ سے اسے جانا پڑا، تو جاتے ہوئے اُس نے اقتدار اسی طبقے کو دیا، جن سے اقتدار چھینا تھا۔ یہ تاریخ کی روایت تھی۔ اسی لیے مسلمانوں کو یہ گمان تھا کہ انگریز جب جائے گا تووہ اقتدار ہم کو دے کر جائے گا، کیوں کہ اس نے ہم سے اقتدار چھینا تھا، اس لیے ہم ہی آئیں گے۔ پھر آزادی کی تحریک میں بھی مسلمان پیش پیش تھے۔ اسی پس منظر میں ۱۸۵۷ء کا واقعہ ہوا اور اس سے پہلے تحریک ِ مجاہدین کی جدوجہد ، بنگال میں فرائضی تحریک یا اس کے بعد کے سرفروشانہ واقعات ہوں___ تاہم، آہستہ آہستہ مسلمانوں پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اب جمہوریت کادور ہے اور یہ گنتی کا معاملہ ہے۔ اس میں جس کی تعداد زیادہ ہوگی وہی حاوی (dominate) ہوگا۔ میونسپل ریفارمز کی تحریک ہندستان میں ۱۸۹۰ء کے عشرے میں شروع ہوگئی تھی۔ سرسیداحمدخاں ان پہلے لوگوںمیں سے ہیں، جنھوں نے اس کا ادراک کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے سیاسی مستقبل کی ازسرِنو تشکیل کرنی پڑے گی، وگرنہ مسلمان اس خیال میں تھے کہ ہم غالب آجائیں گے۔
خوش قسمتی یا بدقسمتی کے ملے جلے رنگوں کے ساتھ تحریکِ خلافت جیسی پہلی عوامی تحریک کا کردار ہے۔ اس تحریک کا نیوکلیس اور جوہر مسلمان ہی تھے۔ یہ ایک ایسی عوامی تحریک تھی جس میں کئی لاکھ افراد شامل تھے اور اس کی قیادت مسلمان کررہے تھے۔ ہندوئوں نے محسوس کیا کہ اگر یہ عوامی تحریک ہی آزادی کی تحریک بن جاتی ہے او رمسلمان اس کی قیادت کرتے ہیں تو سیاسی نقشہ مختلف ہوگا۔ یہ تھی وہ چیز جس کے سبب انڈین نیشنل کانگریس اور دوسری ہندو تنظیموں نے ایک جارحانہ ہندو قوم پرستانہ حکمت عملی تیار کی۔ سرسیّد احمد خاں مرحوم کے دیے ہوئے شعور کے مطابق مسلمان یہ بات سمجھنے لگے تھے کہ عددی اکثریت کی موجودگی سے مسلمانوں کو نقصانات پہنچیں گے۔
اسی احساس کے تابع 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ، ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوںکے مفادات کاتحفظ ہو۔ مسلمانوں کو ان کی ثقافت، ان کے دین اور ان کی تعلیم و معاشرت اور ان کی روایات، ان کے حقوق سے آگاہی ہو۔ اس طرح مسلم لیگ1906ء سے لے کر ۱۹۳۶ء تک محض مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے آواز بلند کرتی رہی۔ اس عرصے میں ایک بڑا اہم سنگ ِ میل دسمبر1914ء کا ’میثاقِ لکھنؤ ‘ ہے۔ پھر اگست1928۸ء میں ’نہرو رپورٹ‘ آئی،  جو واضح طور پر ہندو مفادات کی محافظ تھی۔ اس کے جواب میں قائداعظم کی زیرصدارت مسلم لیگ نے مارچ 1929ء میں ’ 14کات‘ پیش کیے، جو مسلم مفادات کے تحفظ کی نہایت اہم دستاویز تھی، جو آگے چل کر قیامِ پاکستان کی بنیاد بنی۔ اس میں جداگانہ انتخاب، مسلمانوں کے جداگانہ وجود کے تحفظ کا وسیلہ بنے۔ یہ اقدامات مسلمانوں کا سیاسی وزن بڑھانے کے لیے کیے گئے۔ پھر ان کے سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ کو زبان دی گئی۔ یاد رہے کہ سائمن کمیشن رپورٹ 1930ء کو ہندوئوں نے جس طریقے سےاستعمال کیا اور جس طرح یہ واضح کر دیا کہ ہندو غلبہ ہی ہندستان کاسیاسی مستقبل ہوگا، تو یہ تھا وہ موقع جب مسلمان ہل گئے اور پھر انھوں نے ایک نئی حکمت ِعملی وضع کی۔ آخری منزل  جن کی دو قومی نظریے کے تحت مسلمانوں کے لیے جداگانہ اور آزاد ملک کا حصول ٹھیرا۔
دو قومی نظریے کی اساس
غالباً 1888ء میں عبدالحلیم شررنے اس پہلو پر ایک متعین شکل میں توجہ دلائی تھی۔ اُن سے لے کر کے ڈاکٹر سیّدعبداللطیف تک تقریباً 170 افراد نے کھل کرکے یااشارتاً،سیاسی زبان میں یا علمی اسلوب میں تقسیمِ ہند اور دو قومی نظریے کی بات کی۔ لیکن اس میں فیصلہ کن چیز 1930ء میں علامہ محمد اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے اپنی سوچ کو بڑی قوت اور دلیل کے ساتھ اور دردمندی اور سیاسی فہم و فراست کے ساتھ پیش کیا ہے۔ خود میری نگاہ میں قراردادِ پاکستان کی صورت گری کے مرحلوں کو سمجھنے کے لیے 1930ء کاخطبۂ اقبال ایک جوہری حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو اگر آپ تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یقینی طورپر اقبال نے بڑے دُور رس اثرات کے حامل امکانات کا نقشہ واضح کیا تھا۔
اقبال نے اپنے خطاب میں کہا تھا: ’’یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بہ حیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظامِ سیاست، اس آخری لفظ سے میرا مطلب ایک ایسی جماعت ہے، جس کا نظم و انضباط کسی نظامِ قانون کے ماتحت عمل میں آتا ہو، لیکن جس کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح سرگرمِ کار ہو۔ اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے۔ ہندستان میں اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام کی رہینِ منت ہے‘‘۔
آگے چل کر انھوں نے یہ بھی کہا تھا: ’’میں دوسری قوموں کے رسوم و قوانین اور ان کے معاشرتی اور مذہبی اداروں کا دل سے احترام کرتا ہوں، بلکہ بہ حیثیت مسلمان میرایہ فرض ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو قرآنی تعلیمات کے حسب ِ اقتضا، میں اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کروں۔ تاہم، مجھے اس انسانی جماعت سے دلی محبت ہے، جو میرے طور طریقوں اور میری زندگی کا سرچشمہ ہے۔ جس نے اپنے دین اور اپنے ادب، اپنی حکمت اور اپنے تمدن سے بہرہ مند کر کے مجھے وہ کچھ عطا کیا، جس سے میری موجودہ زندگی کی تشکیل ہوئی۔ یہ اُسی کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے ازسرِنو زندہ ہوکر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ وہ اب میری ذات میں سرگرمِ کار ہے‘‘۔
دوسری طرف ہم قائداعظم کے ہاں تدریج دیکھتے ہیں۔ قائداعظم پہلے ’ہندو مسلم اتحاد‘ کے نقیب تھے۔ لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ ہندو قوم اور قیادت کے اصل عزائم کیا ہیں؟ تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مصنوعی ’اتحاد‘ میں مسلمانوں کا مفاد نہیں۔1929ء سےلے کر ۱۹۳۶ء تک وہ   اس موقف پر واضح اور مطمئن ہوگئے کہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ضروری ہے۔ 1938ء کے انتخابات اور ہندوئوں کی زیادتیوں نے اس موقف کو مزید تقویت دی۔
یہ ہے وہ پس منظر ، جس میں مارچ 1940ء میں قراردادِ لاہور پاس ہوئی۔ اس میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ مسلمان ایک قوم ہیں، ان کا اپنا نظام ہے۔ اس حیثیت سے ان کا سیاسی مستقبل بھارت یاہندوئوں کے ساتھ مل کر چلنے میںنہیں ہے، انھیں اپناراستہ الگ نکالنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان پر مبنی مسلمانوں کی ایک ریاست بنادی جائے۔ قرارداد میں لفظ states استعمال ہوا ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ قرارداد کے مختلف مسودے تھے، جن میں اسے آخری شکل دی گئی۔ جمع کے اس صیغے کو ٹائپ کی غلطی یا تسوید کا ابہام ہی قرار دیا گیا، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا، قیامِ پاکستان تک کبھی ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں کی بات نہ ہوئی، بلکہ ایک ہی ریاست کی بات ہوئی اور یہ سب رضاکارانہ طور پر بڑی جان دار قیادت کے ہاتھوں ہوا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ سب کے ذہنوں میں ایک ہی مسلم ریاست، پاکستان کا قیام پیش نظر تھا، جب کہ ۱۹۴۱ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک کی قائداعظم کی تمام تقاریر سے یہ ظاہر ہے اور جسے اپریل ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کے منتخب ارکانِ اسمبلی کی قرارداد میں دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا گیا۔
تیسری بات یہ کہ جہاں مسلمانوں کا اقتدارہوگا، وہاں غیرمسلم آبادی کے حقوق کاتحفظ ہوگا۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف عام طورپر ہم توجہ نہیں کرتے، وہ یہ ہے کہ اجلاس ۲۲مارچ کوشروع ہوا، ۲۳مارچ کو قراردادپیش ہوئی اور ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہوئی۔ لیکن مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے چند ہی ہفتے کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ قراردا دِ لاہور ۲۳مارچ سے منسوب ہوگی، اور اس قرارداد کو ۲۳مارچ کی قرارداد کہا جائے گا، اور ۲۳مارچ ہی کا دن ہرسال منایا جائے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اصل چیز قراردادکے الفاظ اور منظوری نہیں بلکہ اصل چیز وہ جوہری ٹرننگ پوائنٹ ہے، جو اس قرارداد میں واضح کیاگیا تھا، کہ اب تک ہم اپنے حقوق کے لیے ایسے فریم ورک میں راستے تجویز کر رہے تھے جو ایک ہندستان میں تھا۔ اب ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا پر مشتمل ایک فیڈریشن نہیں چلے گی بلکہ دو الگ ممالک ہونے چاہییں۔
اس تاریخی اجلاس میں سب سے اہم تقریر قائداعظم کی ہے۔ ان کے علاوہ مولوی فضل الحق، خلیق الزماں، قاضی عیسیٰ ، بیگم محمد علی جوہر اور دوسرے افراد نے بڑی اہم تقریریں کیں۔ سب نے اسی ایک نکتے پر بات کی۔
اس کے بعد اپریل ۱۹۴۶ء کی قرارداد کو میں سنگِ میل قراردیتاہوں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب اراکینِ پارلیمنٹ جن میں مرکزی وصوبائی دونوں اسمبلیوں کے افراد شامل تھے، ان کی کانفرنس ہوئی۔ اس میں انھوں نے ایک ریاست کا وجود واضح کیا۔ یہ قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھی، جب کہ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی (ان دونوں حضرات کا تعلق بنگال سے تھا)۔ قرارداد کے الفاظ تھے:
ہرگاہ کہ اس وسیع برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان ایسے دین کے پیرو ہیں، جو ان کی زندگی کے ہرشعبے(تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی) پر حاوی ہے، اور جس کا ضابطہ محض روحانی حکمتوں، احکام، اعمال اور مراسم تک محدود نہیں۔
میں اس دوسری کانفرنس میں ایک کارکن کی حیثیت سے شریک تھا۔ ہمارے اسکول کی عمارت میں یہ اجلاس ہوا تھا۔ اس میں کچھ لوگوں نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔ اس قرارداد کے ساتھ ایک حلف نامہ پڑھا گیا جس کا آغاز اس آیت سے کیا گیا تھا: اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  o (الانعام ۶:۱۶۲)’’میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ اور یہ کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ اس قرارداد میں پاکستان کے قیام کے لیے: ’’جو خطرات اور آزمایشیں پیش آئیں گی، اور جن قربانیوں کا مطالبہ ہوگا، انھیں برداشت کروں گا۔ آخر میں یہ دُعا درج تھی: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ  o  (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے ہمارے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔ اس دستاویزپر ہرایک رکن نےدستخط کیے۔
پاکستان بننے کے بعد قراردادِ مقاصد (مارچ 1949ء) کا بھی اگر تجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی ان چاروںبنیادوں کے اوپر ریاست کی تشکیل کا عہد اور اعلان کیا گیا ہے:
قرارداد مقاصد کا متن
٭ ''اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیر حاکمِ مُطلَق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خودمختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
٭ جس کی رُو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
٭ جس کی رُو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔٭ جس کی رُو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات ومقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
٭ جس کی رُو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔٭ جس کی رُو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہوگی۔
٭ جس کی رُو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہوگی۔
٭ جس کی رُو سے اقلیتوں اور پسماندہ، پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
٭ جس کی رُو سے نظامِ عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔
٭ جس کی رُو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
٭ تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود کی منزل پا سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امنِ عالم اور بنی نوعِ انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں‘‘۔ (دنیا ڈاٹ کام)
دو قومی نظریہ: چند غورطلب پہلو
یہاں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ دوقومی نظریہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، یہ پہلے دن سے ہے۔ دوقومی نظریے کی بنیاد اسلام کا یہ تصور ہے کہ زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں۔  ایک یہ ہے کہ اللہ کو الٰہ مان کر اس کی عبادت اور اس کی اتباع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریق زندگی اختیار کیا جائے، جب کہ دوسرا راستہ چاہے وہ کسی دوسرے مذہب پر مبنی ہو، یا لادینیت کی بنیاد پر یا الحاد کے نا م پر ہو، یا کسی بھی نام پر، وہ الگ راستہ اور الگ نظریہ ہے۔ اس کی تلقین ہمیں سورئہ فاتحہ میں دن میں پانچ نمازوں میں بار بار کرائی جاتی ہے کہ  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔ یہ دو واضح طریقے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ دوقومی نظریہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اسلام سے ہٹ کر جو نظام ہوگا، اسے بھی باقی رہنے کا حق ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اللہ نے انسان کو یہاں ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ، اور وہ مقصد اس کی آزمایش ہے۔ آزمایش یہ ہے کہ اسے عقل دی گئی ہے، تقویٰ دیاگیا ہے اور ساتھ ساتھ اسے اختیار بھی دیا گیا ہے، فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس ۹۱:۸) ، یعنی بدی اور پرہیزگاری کے اختیارمیں سے اب اسے منتخب کرنا ہے خیر یا شر ، اسلام یا غیر اسلام، حلال یا حرام ، اللہ کی عبادت یا طاغوت کی عبادت۔ لیکن جو انتخاب بھی وہ کرلے، اسے اس پر قائم رہنے کا حق ہے۔ کسی دوسرے کو اختیارنہیں کہ زبردستی اس کے اوپر اپنی بات کو ٹھونسنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح جو استدلال وہ اختیار کرے گا اس کے نتائج بھی اسے بھگتنے پڑیں گے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن اختیار بہرحال اسے حاصل ہے، جس سے اس کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ لا (دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں۔ البقرہ ۲:۲۵۶)اور لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ o(تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔  الکافرون ۱۰۹:۶) میں اس حقیقت کو دوٹوک الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔
سورۃ البقرۃ میں لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ   کا جو پس منظر ہے وہ یہ واضح کردیتا ہے کہ پہلے   آیۃ الکرسی ہے، جس میں اللہ کے دین کا شعور ہے، اس کی کرسی اور اس کے اقتدار کا تذکرہ ہے۔   پھر اس آیت کے بعد فرمایا گیا: قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج  فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق (البقرہ ۲:۲۵۶)’’صحیح بات غلط خیالات سےالگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘۔
گویا  لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی دلیل کے ساتھ غلط اور صحیح کو واضح کر دیا گیا ہے، خیر اور شر کو ایک دوسرے سے واضح کردیاگیا ہے، اور حق اور باطل کو واضح کردیاگیا ہے۔ اب جو اللہ کا راستہ اختیار کرے گا، وہ ظلمات میں نہیں نُور میں رہے گا، اور جو طاغوت کی عبادت کرے گا وہ نُو رسے دُور رہے گا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی اس بنیاد کے باوجود، جو اس سے ہٹ کر رہنا چاہتا ہے اسے اپنے کیے کا آخرت میں جواب دینا ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ اگر پاکستان کی بنیاد بنتا ہے تو پھر کیا باقی لوگوں کے لیے یہاں رہنے کی گنجایش نہیں ہے؟
وہ بات کو اُلجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلاشبہہ یہ اُن کا انتخاب ہے کہ وہ اسلام قبول کریں، لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو ملک سے وفاداری کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ وہ ایک شہری کی حیثیت سے اپنے تمام حقوق وفرائض کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو سرآنکھوں پر۔ ہمارا یہ عہد ہے کہ ہم قوت سے اسلام مسلط نہیں کریں گے۔ بلاشبہہ ان دوسرے مذاہب یا افکار کے حاملین کو بھی مسلمانوں کے حقیقی جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔  اگر وہ اس میدان میں بے ضابطگی کا ارتکاب کریں گے تو قانون کے مطابق انھیں جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔ آزادیِ افکار کا حق انھیں حاصل ہے، مگر دستور اور قانون کے دائرے کے اندر۔ اس طرح خود مسلمانوں کو بھی جو حقوق حاصل ہیں، وہ قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔ کسی کو بھی قانون اپنےہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے کے بھی یہ آداب ہیں، اور ایک معروف جمہوری معاشرے میں بھی ان آداب کا احترام لازمی امر ہے۔
حال ہی میں عوامی راے کے جائزے پیش کرنے والے اداروں PEW اور گیلپ نے جو سروے شائع کیے ہیں، ان میں آپ دیکھیں گے کہ بہت سے مسلم ممالک میں تو مسلمانوں کی  اس اُمنگ کا اظہار کرنے والوں کی تعداد کہ شریعت کو ہماری اجتماعی زندگی کی بنیاد ہونا چاہیے، ۷۰سے ۹۹ فی صد آبادی تک نے کیا ہے۔ باقی ممالک میں بھی مسلمان ۲۰سے ۴۰فی صد تک کہتے ہیں کہ شریعت کو ہمارا قانون اور نظام ہوناچاہیے۔ اگر جمہور کی عظیم اکثریت کا یہ فیصلہ ہے تو اس کا احترام دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے، ورنہ یہ سب ’اقلیت کے استبداد‘ (Tyranny of the Minority) کے مترادف ہوگا۔
دوقومی نظریے کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمان جہاں اکثریت میں ہیں اور جہاں اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے مستقبل کو خود طے کرسکتے ہیں، وہاں ان کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزاریں اور نظام حکومت اس کی بنیاد پر کارفرما ہو۔ جہاں وہ اقلیت میں ہیں تو ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہاں امن سے رہیں۔ وہ دوسروںکے حقوق کا بھی خیال کریں، لیکن اپنے نظریے ، کمیونٹی، معاشرت ، روایات کی جس حدتک حفاظت کرسکتے ہیں، ان کا تحفظ کریں۔ اس تشخص کو تحلیل نہ ہونے دیں۔ اس کے لیے جدوجہد کریں اور دعوت وتبلیغ کاعمل جاری رکھیں، البتہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آج کی اقلیت کل کی اکثریت میں بدل سکتی ہے، لیکن یہ عمل دعوت و تبلیغ کے ذریعے جاری رکھنا چاہیے۔
جہاں مسلمان کسی ایسے نظام میں رہ رہے ہیں، جو ظالمانہ اور جابرانہ نظام ہے، وہاں بھی آپ اپنے وجود کے لیے اس نوعیت کی جدوجہد کرسکتے ہیں، جس میں ان اخلاقی حدود کا پورا پورا خیال رکھا جائے جو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ نے اُمت کو تعلیم کی ہیں۔اسی لیے اسلامی تاریخ اور قانون کے اندر عدل، توازن اور توسع کی تعلیم دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ جہاد کا ایک مستقل ضابطہ اور طریقہ ہے، جو اسے دہشت گردی سے یک سر مختلف بنادیتا ہے۔ یہ محض اقتدار کی جنگ نہیں ہے۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، اور پھر دوسری شرط یہ ہے کہ جہاد ان آداب، قیود اور اصولوں اور ضابطوں کے مطابق ہو، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے طے کیے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کوئی راستہ جائز نہیں ہے۔ گویا کہ دو قومی نظریہ ایک ابدی اصول ہے اور اس کے یہ مختلف ماڈل ہیں۔
جہاں اکثریت ہے، وہاں کم ازکم اسلامی نظام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ جہاں پر اکثریت یا عددی طاقت حاصل نہیں ہم وہاں کے حالات کے مطابق اپنے تشخص کی حفاظت کی کوشش کریں، اپنے حقوق کی حفاظت کی کوشش کریں اور ان مشترکات میں، جن میں دوسرے بھی شریک ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں۔ اس فریم ورک پر چل کر ہم پُرامن اور کامیاب پیش رفت کے لیے راستہ نکال سکتے ہیں۔
دستور سازی اور نظریہ پاکستان
پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے 1956ء کے متفقہ دستور کو منسوخ کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگا،نیز ان کے اس وقت کے شریکِ کار صدر اسکندر مرزا صاحب سے منسوب یہ بات بھی زبان زدعام کی گئی تھی کہ وہ لوگ جو اسلامی دستور کی بات کرتے ہیں ان کو کشتیوں میں بٹھاکر بحیرۂ عرب کی لہروں کے سپرد کردیا جائے گا۔ البتہ مشیت اور تاریخ کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ فوجی انقلاب کے ایک ماہ کے اندر ہی اسکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا، اور پھر اسلام کے داعیوں کو نہیں بلکہ خود ان کو سمندرپار رخصت کر دیا گیا، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔
1962ء میں انھی فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک کو دستور دیا۔ جس میں ملک کا نام ’اسلامک  ری پبلک آف پاکستان‘ (اسلامی جمہوریہ پاکستان) کے بجاے ’ری پبلک آف پاکستان‘ (جمہوریہ پاکستان) تھا، اور اس میں سے قراردادمقاصد کے چند نمایاں دینی پہلو نکال دیے گئے۔ ۱۹۵۶ء کے دستور میں جو ایک دفعہ تھی کہ: ’’کوئی قانون سازی قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہوگی‘‘ اسے بھی تحلیل کردیا گیاتھا۔
بہرحال اقتدار کے زور پر 1962ءمیں یہ دستور نافذ کیا گیا۔ اس کے تین ماہ بعد پاکستان کی قومی اسمبلی بنی اور اس اسمبلی کے اندر جو پہلی بھرپور بحث ہوئی وہ ’سیاسی پارٹیوں کے قانون‘ پر ہوئی تھی۔ اس اسمبلی نے اس قانون میں زور دے کر یہ شق شامل کی تھی کہ پاکستان کی ہرسیاسی پارٹی کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی سے مطابقت رکھے۔ اس پر بحث کے دوران سیکولر طبقے نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ اسلامی نظریے اور اس سے مطابقت کی شرط قانون میں نہ آئے، مگر اس میں انھیں بُری طرح شکست ہوئی اور ایوب خان کے دستور ہی کے تحت بننے والی اسمبلی نے سیکولرزم کو مسلط کرنے کی سازش کو شکست دی اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو بحال اور تحفظ دینے کا اہتمام کیا۔
واضح رہے کہ اس وقت جسٹس محمد منیر وزیرقانون تھے اور یہ اس قانون کو پیش کررہے تھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں منیرصاحب جیسا فرد بھی موجودتھا، جس نے پاکستان کی اسلامی بنیاد اور شناخت پر ضرب لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، لیکن بالآخر اس کو منہ کی کھانا پڑی اور اس کی بھی دیانت کا پردہ چاک ہوگیا۔ واضح رہے کہ انھوں نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں لکھا ہے کہ: ’’اسلامی آئیڈیالوجی یا پاکستان آئیڈیالوجی کا لفظ جنرل ضیاء الحق نے متعارف کرایا‘‘۔ لیکن آپ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی کی کارروائی اٹھا کر پڑھ لیں۔ اس شخص نے سب سے پہلے تو اسلامک آئیڈیالوجی کے الفاظ کی نفی کی۔ لیکن پھر جب اسمبلی نے اصرار کیا کہ ہم یہ رکھیں گے تو اس نے یہ کہاکہ:’’سلکیٹ کمیٹی نے آئیڈیالوجی آف پاکستان کی تعریف بطور اسلام کی ہے، تاہم میں اس سے بے تعلق ہوں کہ آئیڈیالوجی ہونا چاہیے یا نکال دینا چاہیے، یا اس کی تعریف بطور اسلام کی جانی چاہیے‘‘ ( قومی اسمبلی رُوداد، ۱۱جولائی 1962ء)۔یہی جسٹس منیرصاحب اگلے روز کہتے ہیں: ’’میں نے اس معاملے پر خوب غوروفکر کیا ہے اور میں یہ قرارداد پیش کرتا ہوں کہ آئیڈیالوجی کے الفاظ کو شامل کرنا کسی بھی طرح اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو متاثر نہیں کرے گا اور یہ اقلیتوں کو اجازت دے گا کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ایسے پروپیگنڈے میں تبدیل نہ کریں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں‘‘(ایضاً، ۱۲جولائی 1962ء)۔ یہ الفاظ تھے پاکستان میں سیکولرزم کے علَم بردار جسٹس محمد منیر کے اور ہماری تاریخ کاحصہ ہیں۔
1962 ء کے دستور میں پہلی آئینی ترمیم ہوئی تو وہ یہ تھی کہ پاکستان کا نام ’اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ ہوگا۔ قرارداد مقاصد کو ان الفاظ کے ساتھ، جن میں وہ مارچ 1962ء میں پاس ہوئی تھی بحال کیاگیا اور دستورکی یہ شق کہ: ’’قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی‘‘، اسے بھی اصل شکل میں بحال کیاگیا۔ یہ تینوں چیزیں 1962ء میں اس وقت منظور ہوئیں۔
اسلامی آئیڈیالوجی کا یہی تسلسل 1973ء کے دستور میں بھی ملے گا۔یاد رہے کہ جب اس کا پہلا ڈرافٹ پیپلزپارٹی نے پیش کیا تو اس میں ملک کو سوشلسٹ ری پبلک آف پاکستان قرار دیاگیا۔ مجوزہ آرٹیکل ۳یہ تھا کہ: ’’پاکستان ایک سوشلسٹ ریاست ہوگی‘‘ مگر پیپلز پارٹی نے عوام کی اسلام سے وابستگی کا احترام و اعتراف کیا۔ بالآخر ایک محدود، لادین اور سوشلسٹ اقلیت کی راے پر عوام کی اُمنگوں کو ترجیح دی۔ پھر دستور کے اندر وہ تمام اسلامی شقیں جو 1956ء کے دستورکاحصہ تھیں، ان کو اور زیادہ بہتر انداز سے دستور کا حصہ بنالیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ 1973ء کا دستور بنیادی طور پر ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور ایک وفاقی دستور ہے۔ یہ دستور مذکورہ چاروں خوبیاں رکھتا ہے اور یہ دستور بھی ۱۰اپریل 1973کو منظور ہوا۔ اور ۱۴اگست1973ء کو نافذالعمل ہوا۔ اس طرح ۲۳مارچ 1940ء میں جس سفر کا آغاز ہوا تھا، اور جس کے نتیجے میں اپریل ۱۹۴۶ء،  مارچ ۱۹۴۹ء اور مارچ 1956ء میں ایسے سنگ ہاے میل طے کیے تھے کہ جن سے ہمیشہ کے لیے پاکستان کی شناخت اور منزل کا تعین ہوگیا۔

قرارداد پاکستان - ٢٣ مارچ 1940
مارچ 1940ء کی قرارداد کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے مگر بدقسمتی سے آج کل ایک خاص گروہ کی طرف سے اس کی غلط تشریح کی جارہی ہے۔
23 مارچ  1940 کے حوالے سے ہماری قومی تاریخ میں کم ازکم تین پہلو بہت اہمیت رکھتے ہیں:
  1. 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پیش ہوئی، جو سیرحاصل بحث کے بعد منظور کی گئی۔ اگرچہ سیاسی و اجتماعی زندگی میں قراردادیں بہت سی پیش ہوتی ہیں اورقبول بھی ہوتی ہیں، لیکن وہ قراردادیں جو تاریخ کے رخ کوموڑ دیں، وہ بہت کم ہوتی ہیں۔ اس پہلو سے  23 مارچ 1940ء کی  قراردادِ لاہور کا منظورہونا ایک بڑے اہم اور تاریخی فیصلے کی بنیاد بنا۔
  2. اسی تسلسل میں دوسری بڑی اہم قرارداد، اپریل ۱۹۴۶ء میں دلّی میں مسلم لیگ کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کنونشن کی قرارداد ہے، جو  23 مارچ 1940ء کی قرارداد کی تکمیل، اس کی تشریح اور تعبیر اور اسے عملی شکل دینے کا ذریعہ بنی۔ اس قرارداد کے ساتھ ایک عہدنامہ بھی تھا، جس پر تمام منتخب ارکان اسمبلی نے دستخط کیے، اور اس میں تحریک ِ پاکستان کے محرک اور منزل دونوں کا معتبرترین تصور ہمیشہ کے لیے متعین اور محفوظ کر دیا گیا۔
  3. اس سلسلے کا تیسرا سنگ ِ میل قراردادِ مقاصد ہے، جو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں ۹مارچ 1949ء کو پیش ہوئی اور ۱۲مارچ 1949ء کو منظور ہوئی۔ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی جو پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ہراول دستہ تھی، اور جسے پوری قوم نے یہ کام سونپا تھا کہ ملک کا مستقبل، اس کا آیندہ کانظام ، اس کا دستور، اس کی منزل متعین کرے۔ یہ قرارداد اسی اسمبلی کا کارنامہ تھی۔
  4. چوتھا سنگ ِ مل 1956ء کا متفقہ دستورِ پاکستان تھا۔ اس دستور کا نفاذ بھی  23 مارچ 1956ء کو ہوا اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان متعین کیا گیا۔ یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے کہ  جنرل محمد ایوب خان نے اکتوبر1958ء میں اس دستور کو منسوخ کردیا۔ 1956ء کا دستور آج بھی پاکستان میں دستور سازی کی تحریک اور تاریخ کا سنگِ بنیاد ہے۔ منسوخی کے باوجود، بعد میں جتنے دساتیر بنے، وہ اس بنیاد سے نہ ہٹائے جاسکے، جو بنیاد اس دستور نے فراہم کی تھی۔
مسلم دنیا: درپیش چیلنج
جہاںتک مسلم دنیا کا تعلق ہے ،ہم اس وقت بلاشبہہ ایک بہت بڑی آزمایش اور بڑے ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں ہم پر اللہ کے بے پناہ انعامات برسے ہیں، لیکن ہم نے ان کا حق ادا نہیں کیا۔ بیسویں صدی کاآغاز اس طرح ہوا تھا کہ صرف چار مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر آزاد نظر آتے تھے، باقی ساری مسلم دنیا مغربی سامراجی طاقتوں کی غلام تھی ۔
یہ تقریباً ۲۰۰ سال کا تاریک دور تھا، تاہم ۲۰ویں صدی میں مسلمان دوسروں کی سیاسی غلامی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور آج آزاد مسلمان ممالک کی تعداد ۵۷ ہے۔ ۱۹۷۳ء تک دنیا کی معاشی قوت، مغربی ممالک کے ہاتھوں میں تھی، لیکن اکتوبر ۱۹۷۳ء میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل کی جانب سے امریکا کوتیل بند کرنے کی دھمکی کے ایک معمولی سے جھٹکے نے، مغرب کے ہوش ٹھکانے لگادیے۔ اس طرح تیل کی قیمتوں پر مغربی معاشی اجارہ داری کا توازن تبدیل ہوگیا۔ پھر ۲۰ویں صدی میں اللہ نے دین کاصحیح تصور پیش کرنے کے لیے پے درپے عظیم شخصیات پیدا فرمائیں۔ ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی میں اسلامی احیائی جدوجہد کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ اور سیّداحمدشہید کا بڑاحصہ ہے۔ لیکن ۱۹ویں صدی کے آخر اور ۲۰ویں صدی میں مولانا شبلی نعمانی، مولاناابوالکلام آزاد ، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی، امام حسن البنا، سید قطب شہید، مالک بن نبی، سعید نورسی جیسے بڑے علما کی ایک کہکشاں ہے، جس نے بڑی وسعت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ۔ ان کے بیانیے میں اختلافات بھی ہیں، لیکن ایک ہی مرکزی نکتے پر سب کا اتفاق بھی تھا۔ وہ یہ کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اور اُمت مسلمہ کی کامیابی کا انحصار جہاں انسانوں کی زندگی اور کردار کو تقویٰ اور للہیت پر تعمیر کرنا ہے، وہیں ان کی خاندانی، معاشی، اجتماعی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کو بھی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں تشکیل و تعمیر کرنا ہے۔ گویا ایک ہی مکمل نظام کو قائم کرنے کی پوری کوشش ہمارا فرض ہے۔
مجھے یہ بات سن کر الجھن ہوتی ہے، جب لوگ کہتے ہیں کہ: ’’ریاست کو اسلامی نہیں کہنا چاہیے‘‘۔ قانونی اعتبار سے ریاست ایک ’قانونی وجود‘ ہے اور ایک ’قانونی وجود‘ کی طرح اس کا ایک طبعی مقام ہے۔ بالکل اسی طرح اس کا سیاسی اور نظریاتی وجود اور مقام بھی ہے۔ اگر ایک ریاست کرسچن ریاست ہوسکتی ہے، ایک جمہوری ریاست ہوسکتی ہے، ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہوسکتی ہے، ایک یہودی اسٹیٹ ہوسکتی ہے، ایک بدھسٹ اسٹیٹ ہوسکتی ہے ، ایک ہندو اسٹیٹ ہوسکتی ہے، تو ایک اسلامک اسٹیٹ کیوں نہیں ہوسکتی؟
مسلمانوں کا ایک گروہ کہتا ہے: ’’اس کے لیے کوشش کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تو ایک انعام ہے‘‘۔ لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دیتا کہ ریاست تو کیا زندگی میں کوئی بھی چیز آپ سے آپ حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے سے یہ انعام نہیں مل سکتا۔ رزق اللہ کی نعمت ہے، لیکن کیا رزق کے لیے کوشش نہیں کی جاتی۔ اسلامی ریاست کا وجود اللہ کی نعمت اور انعام ہے تو اس کے قیام کے لیے جدوجہد اور کوشش بھی ضروری ہے۔ اور پھر جب قرآن خود کہتا ہے کہ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ  اور امربالمعروف ونہی عن المنکر یعنی ہمیں یہ کہاجاتا ہے کہ جہاں تم نماز قائم کرتے ہو، زکوٰۃ ادا کرتے ہو، وہاں امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرنا بھی تمھارا فرضِ منصبی ہے۔’امر‘ کے معنی درخواست کرنا نہیں اور ’نہی‘ کے معنی محض متنبہ کرنا نہیں ہے، بلکہ نیکی کو قائم کرنا اور بدی سے روکنا ہے۔ یہ کام ریاستی قوت کا متقاضی ہے۔ محض وعظ و تلقین اس کے لیے کافی نہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ریاست بھی ان حدود کی پابند رہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما دیے ہیں۔
۲۰ویں صدی کے آخری عشروں میں بدقسمتی سے ہم نے اُس معاشی انعام کا فائدہ نہیں اُٹھایا جو اللہ تعالیٰ نے مسلم اُمہ کو عطا کیا تھا۔ ہمارے ریاستی نظام اور ہماری قومی قیادتیں جاہلیت کی بنیاد پر خود مسلمانوں ہی کے خلاف ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرتی چلی آرہی ہیں۔ تاہم، اس ظلم و جَور اور بے اعتنائی کے باوجود اصلاح اور تبدیلی کی قوتیں ہرجگہ کارفرما ہیں۔ اگر مصر میں ۴۰ سال تک الاخوان المسلمون پر پابندی عائد کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں کارکن شہید کرنے یا جیلوں اور تعذیب خانوں میں ڈالنے کے باوجود اسلام وہاں اُبھر سکتا ہے تو پھرمایوسی کیوں؟ ترکی جہاں اذان دینا ممنوع تھا، سر پر ٹوپی اوڑھ نہیں سکتے تھے، کوئی کتاب عربی میں نہیں چھاپ سکتے تھے لیکن وہاں بھی آخرکار مثبت تبدیلی آئی ہے۔ وسطی ایشیا میں ۷۰سال تک کیا مسلمانوں کو محکوم نہیں رکھا گیا؟ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ گولیاں چلے بغیر وسطی ایشیا کے ممالک ماسکو کی غلامی سے نکل کر خودمختاری کی راہ پر چل نکلے۔ تمام خرابیاں، تضادات اور کمزوریاں اپنی جگہ، مگر ہمارے پاس وہ استعداد و قوت اور جذبہ بھی موجود ہے، جسے متحرک ، منظم اور علمی و اخلاقی اعتبار سے تقویت بہم پہنچانے کی ضرورت ہے، اور جہاں جہاں ہم کوشش کریں گے، ان شاء اللہ اس کے نتائج بھی ملیں گے۔ نشیب وفراز اپنی جگہ، لیکن ان سب کے باوجود ان شاء اللہ حالات بدلیں گے اور تبدیلی کی یہ اُمید بالخصوص نوجوانوں سے ہے ۔ آج مسلم دنیا کی ۵۰سے ۶۰فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بڑا قیمتی اثاثہ اور بہت بڑی قوت ہے۔ ان سب کے لیے ہمارا ایک ہی مشورہ ہے کہ زندگی کو محض کھانے پینے اور آرام کے لیے استعمال نہ کریں، بلکہ زندگی کا مقصد پہچانیں، سمجھیں اور پھر اس مقصد کے مطابق اپنے آپ کو تیار بھی کریں اور اس مقصد کو بروے کار لانے کی کوشش بھی کریں۔
تبدیلی کے لیے کام انفرادی سطح پر بھی ہورہا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ یہ کام کرتے ہوئے جو کچھ ہمیں کرنا ہے، اسے اگر تین لفظوں میں ادا کروں تو وہ ہیں: خداشناسی، خود شناسی اور خلق شناسی۔
  • خداشناسی سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو پہچانیں کہ اُس کے وجود کا جو پیغام ایک بندئہ خاکی کے لیے پیغمبروںؑ نے پہنچایا ہے، اس کے مطابق زندگی گزاریں۔
  • خودشناسی یہ ہے کہ میں خود کیسا ہوں اور اللہ اور اس کے رسولؐ مجھے کیسا دیکھنا چاہتے ہیں اور قرآن وسنت میں میرے لیے کیا نمونہ دیا گیا ہے ، کیا ہدایت دی گئی ہے۔
  • پھر ہے خلق شناسی، یعنی اس کے نتیجے میں اللہ کی مخلوق سے میرے تعلقات کیسے ہوں۔ اپنے اعزا، خاندان، محلے، بہن بھائیوں، دوستوں، دشمنوں،کافروں، مسلمانوں ،اداروں، یعنی خاندان سے لے کرریاست تک اپنی منصبی ذمہ داری معلوم ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے نوجوانوں سے یہی گزارش ہے کہ زندگی کا مقصد متعین کیجیے اوور پھر مقصد کو سنجیدگی سے قبول کرکے اس کے تقاضوں کو قبول کیجیے۔

[ ماخوز - تحریک ِ پاکستان سے تعمیرِ پاکستان تک:پروفیسر خورشید احمد]

Related:


.
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Toying with reintegration of Terrorists and De-Radicalization

$
0
0
Image result for deradicalization of terrorists

THE radicalisation process not only changes a person’s worldview, it also alters their personal philosophy on life. I once asked a radical whether he would like to return to a normal life. He could not comprehend the question, even after I rephrased it several times. While he had developed differences with his leadership and colleagues, conceiving of a life beyond militancy was hard for him. When he finally got my point, he laughed. Not about his life, but about the ‘poor normal lives’ of people like myself.

It always surprises me when I hear of a hardcore militant wanting to return to the mainstream fold. It was hard to believe when the head of the Tehreek-i-Taliban Pakistan’s (TTP) Punjab chapter Asmatullah Muawiya was given amnesty. The reported surrender of Jamaatul Ahrar’s (JuA) spokesperson Ehsanullah Ehsan is even more surprising. This doesn’t mean that deradicalisation is impossible; there are examples across the world and in Pakistan that militants quit violence, but it usually happens due to three factors.

First, security agencies, using coercion and incentives, succeed in bringing some violent radicals back into mainstream society, mainly to use as propaganda tools against their former associates and similar non-state actors.

It is clear that the state lacks a clear, comprehensive deradicalisation policy.
Second, internal debates on theological and political issues, particularly evident in prisons, may change the minds of some militants, who then adopt non-violent means to pursue their objectives. In Cairo’s prisons, for instance, Al Gama’a al-Islamiyya militants came up with what they called a ‘revision’ and many denounced the violent path. This doesn’t mean that putting militants in the same cells will necessarily trigger deradicalisation — in many cases, it triggers ultra-radicalisation, as is happening in Pakistan’s prisons and as happened in Camp Buccaf, Iraq, where despite deradicalisation programmes the militant Islamic State group was nurtured.

Third, deradicalisation occurs when ideological, political and socioeconomic situations change and non-state actors are provided opportunities to reintegrate. There are many examples from Africa to Latin America.

The Philippines’ Mindanao (now Bangsamoro) peace process is a recent example; although it has a long history of successes and failures, the government and Moro freedom fighters are heading in the right direction. The most important thing about the Moro is that it is a separatist – not ideologically regional or global – movement. Lebanon’s Hezbollah is another example of a strong ideological and religious movement without apparent global ambitions. Despite its political mainstreaming, however, the group still behaves like a non-state actor. It may have territorial reasons for this, as ideological movements believe in ultimate victory.

I once asked Nasir Abbas similar questions about the factors behind his return to normal life. A former senior member of Indonesian militant group Jemaah Islamiyah, Nasir is now helping the government to rehabilitate terrorist detainees in Jakarta. He recounted many reasons, including some popular notions of deradicalisation — he was unhappy with the civilian causalities of bombings, and his group’s flawed political and ideological arguments for it, etc. But the most revealing reason was that his associates began to distrust him. For him, this was the deciding factor in his exit.

As far as Ehsanullah’s case is concerned, there is little information about the real motivations behind his return. One media report indicated that his close friend Asmatullah convinced him to quit JuA. One thing, however, is clear: his return is not part of any comprehensive policy to reintegrate militants.

Some in the media and policy circles argue that religiously inspired militants deserve the same amnesty granted to Baloch insurgents, but that the government has given the insurgents general amnesty is an incorrect assumption. Although political reconciliation in Balochistan was an important point in the National Action Plan, the establishment has so far shown little interest in reconciliation as it believes the insurgency is weakening anyway. There were reports that some Baloch groups were demanding much less compared to what the religious militants had once been demanding, which included jobs and the release of detainees. Although there is a huge difference between the Baloch insurgency and religiously inspired militancy in terms of scale, intensity and outreach, it is evident that the state has been showing less flexibility towards those who are tagged as anti-state.

It is also important to note that the concepts of disengagement, disarmament, demobilisation, de-radicalisation, rehabilitation and reintegration vary in functional attributes if not much in objectives, and many states have their own models and experiences. Pakistan’s context is unique; multiple types of violent and non-violent extremist groups operate here that have sectarian motives, global aspirations and local dreams. Many of them have been part of the state’s jihad project. So whenever there is debate on the soft components of counterterrorism in this country, the question of where to start such a process inevitably arises.

Recently, a working group of security experts in Islamabad debated the options and probabilities of reintegrating banned militant organisations. The group also listened to the points of view of the leaderships of two banned organisations. It reached the conclusion that it is parliament’s job to determine the direction of any reintegration plan. The group proposed that parliament constitute a high-powered, national-level truth and reconciliation commission to review the policies that produced militancy and to mainstream those willing to shun violence. This commission may deliberate on whether or not to identify wrongs committed in the past.

Most importantly, it was deliberated that such probabilities should only apply to those groups that are conventional in nature and labelled as proxies. The JuA spokesperson’s surrender and confession confuses the whole debate. The state has yet to chalk out any strategy of reintegration. Chances are few that a single surrender will trigger a trend similar to what happened in Algeria in 2005 after the enforcement of the Charter for Peace and National Reconciliation. However, it was not a general amnesty, and its people had endorsed the idea through a public referendum.

Now is the time for parliament to initiate debate on this issue. Otherwise, spoilers will continue toying with ideas like de-radicalisation and reintegration.
By MUHAMMAD AMIR RANA, The writer is a security analyst.

https://www.dawn.com/news/1331503/toying-with-reintegration
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

خلافت اور امامت کے نام پر فتنہ و فساد Terrorism for Khilafat or Imamat

$
0
0



گن پوانٹ پر انٹرنیشنل خلافت یا امامت:
داعش، القاعدہ ، تکفیری طالبان ، بوکو حرام اور اس طرح کی تکفیری دہشت گرد تنظیموں کا مقصد مذہبی بنیاد پر سیاسی طاقت کا حصول ہے تاکہ عالمی حکومت (ان کے مطابق اسلامی خلافت) قائم کی جائے- ایرانی'ولایت فقہ'کا بھی اسی طرح کا بین الاقوامی نظریہ ہے، وہ سنی  اصطلاح 'خلافت'کی بجایے شیعہ اصطلاحات (امامت ،ولایت فقہ وغیرہ) استعمال کرتے ہیں- (بہت سے عالمی شیعہ علماء ایرانی نقطہ نظر سے متفق نہیں)- اگر ایرانی ولایت فقیہ ایران تک محدود رہے توکسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا، کہ یہ ایران کا اندرونی معاملہ ہے مگر جب اس نظریہ کو دوسرے ممالک تک پھیلا دیا جائے تو پھرفکری اور عملی طور پرایرانی اورداعش جیسی دشت گرد تنظیموں میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے ، کیونکہ ان کے مقاصد ایک طرح کے ہو جاتے ہیں جس میں طاقت اسلام کے نام پر حاصل کی جاتی ہے- عراق ، شام کی مثال سامنے ہےجہاںداعش اور ایران روس سے مل کر معصوم عوام پر ظلم اور قتل و غارت گری میں مشغول ہیں-
Export of Iran's revolution enters 'new chapter': Iran's top general said  his country has reached "a new chapter" towards its declared aim of exporting revolution, in reference to Tehran's growing regional influence. The comments by Major General Mohammad Ali Jafari, commander of the nation's powerful Revolutionary Guards Corps, come amid concern among some of Shiite Iran's neighbours about Tehran's role. "The Islamic revolution is advancing with good speed, its example being the ever-increasing export of the revolution," he said, according to the ISNA news agency. "Today, not only Palestine and Lebanon acknowledge the influential role of the Islamic republic but so do the people of Iraq and Syria. They appreciate the nation of Iran." He made references to military action against Islamic State (IS) jihadists in Iraq and Syria, where the Guards have deployed advisers in support of Baghdad and Damascus.  "The phase of the export of the revolution has entered a new chapter," he added, referring to an aim of Iran's 1979 Islamic revolution.>> http://www.dailymail.co.uk/wires/afp/article-2990005/Export-Irans-revolution-enters-new-chapter-general.html---http://peace-forum.blogspot.com/2016/03/exporting-iranian-revolution-to-arabs.html
........................................................
فرقہ واریت سنگین گناہ ہے، الله کا فرمان ہے:
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)

مگر مسلمان اس لعنت میں گرفتار ہیں-مزید پڑھیں: انسداد فرقہ واریت: مختصر تاریخ اورعملی اقدامات >>>>

جنگ تیس سالہ:
جنگ سی سالہ یا جنگ تیس سالہ 1618ء سے 1648ء تک جاری رہنے والی مذہبی مقاصد  (فرقہ وارانہ ) کیلئے لڑی گئی ایک جنگ ہے۔ زیادہ تر جنگ یورپی ملک جرمنی میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں براعظم یورپ کے کئی طاقتور ممالک نے حصہ لیا۔ عیسائیوں کے دو فرقوں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے اختلافات اس جنگ کا سب سے بڑا محرک تھے۔ ہیسبرگ خاندان اور دیگر قوتوں نے جنگ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کیتھولک فرانس نے کیتھولک فرقے کی بجائے پروٹسٹنٹ فرقے کے حق میں جنگ میں حصہ لیا اور اس وجہ سے فرانسیسی ہیسبرگ دشمنی میں مزید بھڑک اٹھے۔ یہ تیس سالہ جنگ بھوک اور بیماریوں کا سبب بنی اور اس سے حالات اور زیادہ خراب ہو گئے۔ یہ جنگ تیس سال تک جاری رہی، لیکن اس جنگ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان پر جنگ ختم ہونے کے بعد بھی طویل عرصے تک قابو نہ پایا جا سکا۔ بالآخر یہ جنگ ویسٹ فالن معاہدۂ امن کے بعد ختم ہوئی۔ (آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے).... امت مسلمہ کو یورپی فرقہ واریت کے تجربہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے
..............................................................

ایران اور اسلامی دنیا:
ایران ایک شیعہ اسلامک ریپبلک ہےجہاں ایک ملایت حکومت ہے،سعودیہ ایک وھابی بادشاہت مگرپاکستان صرف اسلامک ریپبلک ہے جہاں شیعہ سنی کو برابر آیئنی حقوق حاصل ہیں- ایران میں شیعہ کو آیئنی  ترجیح ہے مگر پاکستان میں صدر ، وزیر اعظم ، سپیکر ، آرمی ، سروسس چیف  اوراعلی عھدوں پر شیعہ مسلمان ، اقلیت کے باوجود appoint ہوتے ھیں ایک طویل فہرست ہے-  ایران میں  سخت  قسم  کی  مللایت  قائم ہےاور سعودیہ میں وھابیت  کا زور ہے- ملا کسی  مکتبہ  فکر  ہو  وہ  سخت  متصب  ہوتا  ہے، اپنے  علاوہ  سب کو  غلط  حتی  کہ  کافر  کہنا  عام  بات  ہیے-
ایران ایک بین الاقوامی ریاست ہے جو اقوام متحدہ کا رکن ہے- انقلاب ١٩٧٩ کے بعد انٹرنیشنل مخالفت کی وجہ سے انقلاب کو وقتی طور پر ایران تک محدود کردیا گیا، لیکن، عراق ، شام . لبنان ، یمن اور دوسرے خلیجی ممالک میں شیعہ آبادی کو بغاوت کی طرف مائل کرنے اور ان کی سیاسی،  فوجی و مالی مدد کے بعد ایران کا توسیع پسندی کا منصوبہ واضح ہے- ایران ایک اندازہ کے مطابق سالانہ ٦ بلین ڈالر شام اور ان جنگوں پر خرچ کر رہا ہے- آخر کیوں؟ کسی ملک نے اب ایران پر حملہ نہیں کیا!  یہ ایرانی imperialism سامراجیت  کا پلان آشکار unfold ہو رہا ہے-  
پاک ایران تعلقات:
ایران کے پاکستان سے تاریخی دوستانہ تعلقات ہیں- مگر ایران نے کسی بھی آزاد ملک کی طرح ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی- یہی معاملہ پاکستان کا رہا ہے- مفادات کے تضاد کے باوجود دوستانہ ہمسایہ تعلقات قائم رھے- ایران کی انڈیا سے قربت کوئی سیکرٹ نہیں- افغانستان میں ایران انڈیا کے مشترکہ مفادات اور باہمی محبت ایک حقیققت ہے-پاکستان کے سعودی عرب اور گلف ریاستوں سے اچھے تعلقات ہیں- عراق ، ایران جنگ میں پاکستان نے توازن رکھا- اب بھی سعودیہ کے ساتھ اچھے تعلقات اور جنرل راحیل شریف کو مشترکہ اسلامی فوج کی سربراہی قبول کرنے کے باوجود ایران کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان ایران کے خلاف کروائی کا حصہ نہ بنے گا اگرچہ ایران کو شک ہے- ایران کی عراق ، شام ، لبنان ، یمن میں سیاسی اور فوجی عمل دخل کو پاکستان کی اکثریت (سنی) درست نہیں سمجھتی، اگرچہ شیعہ اقلیت ایران کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے- کوئی جمہوری حکومت عوامی رد عمل کے خلاف نہیں جا سکتی نہ ہی ایسا کرنے کا حق ہے-
پاکستان کی شیعہ آبادی کو اس معاملہ کی حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنے وطن اور حکومت سے وفادری پر حرف نہیں آنے دینا چاہیے-ایران سے ہمدردی اپنی جگہ مگر پاکستان ان کا وطن پہلی ترجیح ہونا چاہیے- ولایت فقہ کا نظریہ انقلاب ایران کی پیداوار ہے، جس پر شیعہ علماء میں اختلاف ہے- اسی طرح داعیش، القاعدہ، تکفیری طالبان اور اس جیسی دہشت  گرد تنظیموں کے "نظریہ خلافت"سے مسلمانوں کی اکثریت کو اختلاف ہے- کسی کا کوئی بھی مذھب یا فقہ ہو، اپنے وطن پاکستان سے وفاداری پہلی ترجیح ہونا چاہیے-

ایرانی توسیع پسندی:
ایران کو ایک شہری ریاست ہونا چاہیے جو بین الاقوامی کرداروں کا احترام کرے۔ دوسرے ممالک کے داخلی امور میں عدم مداخلت کا پختہ وعدہ کرے اور ان کی خود مختاری کو نقصان نہ پہنچائے۔ اگر ایران اس کا وعدہ کرتا ہے تو اس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بیشتر مسائل خود بخود ہی ختم ہوجائیں گے۔ ایران کو ایک سول ریاست یا بدستور ایک انقلابی ریاست جو اپنا انقلاب دوسرے ممالک کوexport برآمد کرتی ہو،  ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا کیونکہ ایک شہری ریاست سے تو باہمی مفادات اور سیکولر اصولوں کی بنیاد پر کسی فریم ورک پر کوئی اتفاق رائے کیا جاسکتا ہے لیکن شدت پسند انقلابی ریاست سے ایسا معاملہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

ایرانی آیین اور حکومت کے اقدامات سے نظرآتا ہے کہ ایران کی شیعہ ملّائیت تمام مشرق وسطی پر اپنی حکمرانی چاہتی ہے۔ جہاں تک القاعدہ اور داعش کا معاملہ ہے تو وہ سخت گیرسنی خلافت کا قیام چاہتے ہیں۔ ایران اورتکفیری جہادی (جو غلط طور پرسنی کہلاتے ہیں) دونوں ہی اسلام کے مقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کے تیل کے کنووں پر بھی قابض ہونا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تحفہ ہوگا جو انھیں اسلامی دنیا اور اس سے ماورا اثرورسو خ دلا دے گا۔

پاکستان کا کردار:
ان حالات میں پاکستان خاموش تماشائی بنا رہے تاکہ ایران مشرق وسطی سے فارغ ہو کریا باهم simultaniously پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگی سے کمزور کرکہ انڈیا اورافغانستان کے ساتھ مل کراس کے ٹکڑے کرکہ قریبی پاکستانی علاقوں کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے- ایران پاکستانی میڈیا پر بہت انویسٹ کر رہا ہے، میڈیا ایرانی نقطہ نظر پروموٹ کر تا ہے، جو مخصوص لابی کے زیراثرہے-
پاکستان کو علاقہ کے دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ مل کراپنی حفاظت کرتے ہوے، ایران کو توسیع پسندانہ اقدامات سے باز رکھنے میں اپنا پر امن کردار ادا کرنا ہے-

پاکستان کی شیعہ اقلیت:
پاکستان ایک اسلامی جمہوریت ہے، سنی اکثریت کے باوجود شیعہ اقلیت کو دوسرے مسلمان شہریوں کی طرح برابرآئینی حقوق حاصل ہیں- پاکستانی شیعہ پر امن شہری اورملک کے وفادار ہیں اور پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، معاشرہ میں مل جل کر پیارومحبت سے رہتے ہیں- ان کا ایران کی طرف جھکاؤ فطری ہے- شیعہ، سنی کا فرق سوشل انٹریکشن اورباہم دوستی میں آڑے نہیں آتا-
پاکستان میں سرکاری اور عوامی سطح پر شیعہ سنی کشمکش کا وجود نہیں۔ افراد متعصب ہو سکتے ہیں مگر پاکستانی حکومت‘ فوج اور افسر شاہی بڑی حد تک اس سے پاک رہی بانی پاکستان، قائد اعظم فرقہ واریت سے بالاتر تھے- ممنوں حسین ، سکندر مرزا اور یحییٰ خان‘ذولفقار بھٹو ، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداریاقتدار میں رہے۔ محصف میر ایئر چیف ، موسیٰ، یحییٰ خان آرمی چیف تھے- شیعہ سیاست دانوں پر کوئی بھی دوسرا اعتراض کیا گیا مگر مکتب فکر کا کبھی نہیں۔
پچھلی تین دہایوں سے ایران اور سعودی عرب پاکستان میں پراکسی جنگ چلا رہے ہیں-تکفیری طالبان اوراب داعیش بھی فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ مل کر پرامن عوام اورخاص طور پرشیعہ کمیونٹی، ان کی امام بارگاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو قابل افسوس ہے-ایران پر شیعہ دہشت گرد تنظیموں کو مدد فراہم کرنے کا الزام ہے- جو مخالف مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بناتے ہیں-

پاکستانی شیعہ اور ایران:
پاکستانی شیعہ  کمیونٹی کا ایران سے فقہی تعلق اور زیارات کی وجہ سے محبت و احترام کوئی قبل اعتراض بات نہیں- متنازعہ ایرانی ولایت فقہ سے مذہبی حد تک تعلق پربھی کسی کو اعترض نہ ہو گا- پاکستانی کیتھولک مسیحی رومن پوپ سے مذہبی عقیدت رکھتے ہیں مگریہ عقیدت ان کی پاکستان سے سیاسی وفاداری پراثر انداز نہیں ہوتی-  وہ پاکستان پر اپنی جان بھی قربان کرتے ہیں- ان کی پاکستان سے وفاداری کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے اگرچہ وہ ایئنی طور پر  اعلی ترین اقتدار کے عھدے (صدر ، وزیر اعظم) حاصل نہیں کر سکتے مگر شیعہ کر سکتے ہیں اور  کر رہے ہیں-



ایرانی ولایت فقہ (Iranian Guardian Council) اور پاکستانی شیعہ:

ولایت فقہ ایرانی ریاست کا ایک خالصآیینی ادارہ ہےاس سے کسی قسم کی سیاسی وابستگی، پاکستانی شہری کے کردارپر سوالیہ نشان ہے-  ہو سکتا ہے کہ عام شیعہ شہریوں کو ولایت فقہ کی تفصیلات کا علم نہ ہو مگر ان کے مذہبی لیڈروں اور علماء جو ایرانی ولایت فقه سے وفاداری کا اظھار کرتے ہیں، ان کو بخوبی علم ہو گا- لہٰذا اپنی سوچ اور عقیدہ کو مشکوک نہیں بلکہ واضح کرنا چاہیے-
اگر پاکستانی شیعہ، ایرانی ولایت فقہ سے سیاسی وفاداری رکھتے  ہیں تویہ دوہری وفاداری یا دوہری شہریت کا معاملہ بن جاتا ہے- اس صورت میں ان کیاخلاقی اور  قانونی پوزیشن ہو سکتی ہے :
1.بیرون ملک پاکستانیوں کی طرح دوہری شہریت dual citizenship اختیار کریں,مگر یہ تبھی ممکن ہے اگر ایران ان کو ایرانی شہریت دے-  
2.دوہری وفاداری یا شہریت dual citizenship کی صورت میں، قانونی طور پر ممبر پارلیمنٹ بھی نہیں بن سکتے، سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں-
3.اگر ایران ان کو شہریت نہ دے تو پھر یہ  ایرانی ولایت فقہ سے صرف مذہبی تعلق رکھیں، مکمل سیاسی وفاداری پاکستان سے اور موجودہ  برابری کے سٹیٹس کے شہری کے حقوق سے فائدہ اٹھائیں-
پاکستان کی سیاسی خاص طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کو یہ اہم قومی سلامتی کا معاملہ پارلیمنٹ ، میڈیا اور ہر فورم پر اٹھانا چاہیے اور مناسب قانونی اور آیئنی تقاضے پورے کیے جائیں-  ابهام خطرناک ہے-
Related:
http://salaamforum.blogspot.com/2016/04/blog-post.html
یران کا پاکستان پر مداخلت کا الزام ۔ حقیقت کیا -1ا
http://roznama92news.com-2
http://rejectionists.blogspot.com/2017/04/wilayat-e-faqih-doctrine-fifth-column.html
http://wilayatefaqih.blogfa.com/post/335
http://www.dw.com/ur/36810161
فقیہ کی ولایت:یہاں پرحضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی کاوہ قول غور طلب ہے جس میں وہ  فرماتے ہیں: "ولایت فقیہ ایسےموضوعات میں سے ہے کہ جن کا تصور ہی ان  کی تصدیق کرتا ہے اور کسی دلیل  کی ضرورت نہیں ہےیعنی جو بھی اسلام کے احکام اور عقاید کو اجمالی طور پر جانتا ہو توجونہی وہ ولایت فقیہ پر پہنچے گا اور اس کا تصور کرے گا تو فوراً ہی اس کی تصدیق کرے گا اور اس کو ضروری اور بدیہی قراردے  گا- http://wilayatefaqih.blogfa.com/post/321
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں طلاب کو عید قربان کے حوالے سے خصوصی مبارک باد دی اور کہا کہ عید کا دن ہمیں حضرت ابراہیم (ع) کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں اس دن سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اپنی قوم، ملت اور خدا کی خاطر اپنی عزیز ترین چیز بھی قربان کرنی پڑے تو قربان کر دینی چاہیئے۔ انہوں نے ولایت فقیہ کو زمین پر خدا کا نظام حکومت قرار دیا اور کہا کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے نظام کے بارے میں شکوک اور شبہات رکھتے ہیں وہ عملاً سیکولر، فاشسٹ، استکباری اور غیر اسلامی نظاموں کو اپنی زندگیوں میں قبول کر لیتے ہیں، لیکن ایک فقیہ دین اور باعمل شجاع رہبر کے نظام کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نظام ولایت فقیہ عقل اور نقل دونوں طریقوں سے ثابت ہے اور صرف جن کے پاس عقل نہیں ہے، ان کو اس بارے میں شک رہتا ہے۔
http://mwmpak.org/2015-04-23-09-10-57/2015-04-23-09-14-41/ولایت-فقیہ-کا-نظام-زمین-پر-خدا-کی-حکومت-کا-نظام-ہے،-علامہ-ناصر-عباس-جعفری
لبنان کے ایک ممتاز شیعہ مذہبی پیشوا السید علی الامنین نے کہا ہے کہ ایران کے ولایت فقیہ کا تعلق کسی مخصوص سیاسی مکتب فکر سے نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ولایت فقیہ کے نظام کو ایران سے باہر کسی دوسرے ملک میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ اس نظام کو ایران کے اندر تک ہی محدود رکھا جائے۔
https://urdu.alarabiya.net/ur/editor-selection/2015/04/27/
داعش اور حزب اللہ ایک سکے کے دو رُخ!
ایک دوسرے کے نظریاتی دشمنوں میں گہری مماثلتیں:لبنان کی ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ اور شام وعراق میں سرگرم ’داعش‘ اگرچہ ایک دوسرے کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں مگر دونوں دہشت گرد تنظیموں کے درمیان کئی ایک گہری مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔  داعش اور حزب اللہ کے درمیان ان مشترکہ قدروں کی نشاندہی کی ہے جو ان دونوں شدت پسند گروپوں کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔ یوں دونوں تنظیمیں اپنے طریقہ واردات، جنگی حربوں، ذرائع ابلاغ کے استعمال سمیت کئی دوسرے پہلوؤں سے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں۔
مخالفین کے قتل عام کی ویڈیوز بنا کر دوسروں پر رعب طاری کرنے کے لیے انہیں مشتہر کرنا صرف داعش ہی کی جانب سے نہیں بلکہ حزب اللہ کی طرف سے بھی یہ حربہ آزمایا جاتا رہا ہے۔ دونوں گروپ خوفناک مناظر کی تصاویر اور ویڈیوز تیار کرکے اپنی مجرمانہ عسکری گرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے معاملے میں بھی حزب اللہ اور داعش ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ شام میں صدر بشار الاسد کی وفاداری میں جنگ کے دوران جتنے عام شہری حزب اللہ کے دہشت گردوں نے قتل کیے ہیں مخالفت میں داعش نے شاید اتنے نہ کیے ہوں۔ مگر دونوں گروپ عام شہریوں کے وحشیانہ قتل عام میں ایک ہی راستے پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
دونوں میں ایک قدرے مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی دوسرے ملکوں میں جنگجوں کے لیے غیرملکی جنگجوؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ داعش شام اور عراق میں جنگ کے لیے بیرون ملک سے جنگجو بھرتی کرتی ہے جب کہ حزب اللہ بھی لبنان اور شام کے علاوہ دیگر ممالک سے اپنے حامیوں کو اس جنگ میں جھونک رہی ہے۔
نظریاتی اعتبار سے بھی دونوں ایک ہی ڈگرپر چلنے والے گروپ ہیں۔ داعش حزب اللہ کو اور حزب اللہ داعش کی تکفیر کرتی ہے۔ حزب اللہ کے نظریاتی بنیادوں کا پس منظر ایران کا ولایت فقیہ کا نظام ہے جب کہ داعش ابو بکر البغدادی اور القاعدہ کے نظریات کو اپنائے ہوئے ہے۔ دونوں اپنے تئیں اسلام کی ’خدمت گار‘ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں مگر ان کے ہاتھوں سب سے زیادہ مسلمان ہی ہلاک ہو رہے ہیں۔   http://ara.tv/zhb7b
...........................................
 ایران نواز پاکستانی شیعوں کے نظریات کا تجزیہ – عامر حسینی
پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے دائیں بازو کے مولویوں کے تین بڑے گروپ ہیں جن کو ہم ایران میں اسلامی انقلاب کے قائد حوزہ علمیہ قم کے سید روح اللہ خمینی اور ان کے دیگر حامیوں پر مشتمل مذهبی پیشوائیت کے بطن سے جنم لینے والے نظریہ ولایت فقیہ کے حامیوں کے گروپ کہہ سکتے ہیں اور یہ پاکستان کے اندر بهی ولایت فقیہ کے ایرانی نظریہ کو روشنی میں اسلامی انقلاب لانے کے داعی ہیں ،ان میں سے ایک گروپ کی سربراہی اس وقت علامہ جواد نقوی کررہے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے پاس ہے اور تیسرے گروپ کی قیادت علامہ ساجد علی نقوی کے پاس ہے
شیعہ کمیونٹی کے دائیں بازو کے ایک اس حصے نے جو ایران کے اندر انقلاب کے خمینی شیعی ماڈل سے متاثر ہوچکنے کے بعد پاکستان میں زمینی حقائق کے برعکس اس ماڈل کا نفاز کرنا چاہتا تها ایرانی کیمپ جوائن کرلیا
پاک و ہند کی شیعہ کمیونٹی کے لیےیہ فیصلے انتہائی تباہ کن اور ایک طرح سے پاکستان ، سعودی عرب و دیگر گلف ریاستوں کی جانب سے پاکستان کو اپنی سٹریٹیجک پالیسیوں کے لیے میدان جنگ بنانے کے فیصلے کو موثر ثابت کرنے کے مترادف تھے
 پاکستان میں ایران کے آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کے نظریہ ولایت فقیہ جوکہ ایران کے آئین کا بنیادی جزو بهی ہے کی بنیاد پر سیاسی عمارت کهڑے کرنے والے ان تین مذکورہ بالا پاکستانی گروپوں کے اپنے اپنے خیال کے مطابق سید جواد نقوی یا سید ساجد علی نقوی یا راجہ ناصر عباس پاکستان میں امام منتظر قائم آل محمد مهدی علیہ السلام کے نائب ایرانی ولی فقیہ کے نائب ہیں ویسے تو سید حامد علی موسوی کا گروپ بهی سید حامد موسوی کو نائب امام پاکستان کے اندر خیال کرتا ہے
علمائے اہل تشیع میں نوآبادیاتی نظام سے قبل اور نوآبادیاتی دور و بعد از نوآبادیاتی دور میں غیبت امام زمان کے بعد سے یہ تصور رہا کہ امام زمانہ غیوبت میں بهی ملت اہل تشیع کی رہنمائی فرماتے ہیں اور ان کے معاملات فقہی و شرعی میں ان کی طرف سے یہ فریضہ علمائے شیعہ کے پاس ہے لیکن یہ کوئی کسی کو باقاعدہ نیابت امام سونپے جانے والی بات نہیں تهی جو بهی مجتهد فی المذهب کی شرط پر پورا اترے وہ نیابت امام کا اہل ہے لیکن اس سے مراد اس مجتهد کا سیاسی انقلاب برپا کرنا نہیں تها بلکہ علمائے اہل تشیع کی اکثریت نے ظہور امام غائب تک اپنے آپ کو سیاسی معاملات مین رہنمائی و مشاورت تک وہ بهی اگر کوئی چاہے تو محدود کرلیا تها
لیکن سید روح اللہ خمینی سمیت کئی ایک علمائے ایران نے ولائت فقیہ کے نام سے ایک نیا تصور نیابت امام پیدا کیا اور اگر بغور دیکها جائے تو اپنے مواد اور هئیت کے اعتبار سے سارے کے سارے دلائل وہ تهے جو ہم اسی زمانے میں عراق کے علامہ باقرالصدر، مصر میں تشدد پرست تحریک کے قائد سید قطب اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے سید مودودی کے ہاں پاتے ہیں
آیت الله خمینی کا نظریہ ولایت فقیہ ایک طرح سے امام زمانہ کے کلی سیاسی اختیارات کی منتقلی نیابت کے نام پر کسی ایک شیعہ عالم کو کرنے کا نام ہے اور بعض مخالفین ولایت فقیہ کے ہاں یہ اپنے جوہر کے اعتبار سے صفت معصومیت کو اہلیت حکمرانی و ولایت روحانی و سیاسی کی شرط قرار دینے سے انحراف کا نام بهی ٹهہر جاتی ہے
کس طرح پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے لوگوں کو پاکستان کے زمینی حقائق کے برعکس ان ایرانی شیعی انقلاب سے مستعار لئے گئے تصورات کے تحت پاکستان کے سیاسی نظام کو بدل ڈالنے کے فریب کن نعروں کے تحت گمراہ کرنے کی کوشش ہوئی اور اس تکفیری دیوبندی و سلفی فریق کو بالواسطہ طاقتور کیا گیا جو یہ دعوے کرتا ہے کہ پاکستان کو ایک شیعہ ریاست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں انهی تنظیموں کے نام اور ان کے جلسوں میں ایرانی علما کی تصویریں پیش کرتا ہے
ولایت فقیہ کے ایرانی نظریہ کا پاکستان میں ایران نواز پاکستانی شیعوں پر کچھ ایسا اثر ہوا ہے کہ وہ ایرانی آیت الله اور ولی فقیہ کو امام معصوم کے درجے پر بٹھا دیتے ہیں جن پر تنقید نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی تنقید کرے تو اس پر تکفیری الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے-
..............................................
 "ولایت فقیہ کا نظام اصلاحات کے نام پر ایرانیوں کو مسلسل دھوکا دے رہا ہے۔ اس نظام کے سائے تلے کوئی بھی تبدیلی یا اصلاح ناممکن ہے۔ تہران کا موجودہ نظام محض نعروں کا نظام رہے گا۔ اس میں بدعنوانی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس پر انٹیلی جنس مافیا کا پوری طرح کنٹرول ہے۔ معاشی مسائل حدوں کو پار کرچکے ہیں جس کا نتیجہ غربت، فحاشی اور خودکشی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ قوم کے بہترین اور باصلاحیت دماغ پوری دنیا میں ہجرت کرچکے ہیں۔
 ایرانی عوام بتدریج اپنے قانونی حقوق کے حصول کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات روز اوّل سے واضح ہے کہ ولایت فقیہ کا نظام اور اس کے مختلف حلقے عوام کی جانب سے منتخب کردہ نہیں اور وہ کسی بھی لمحے تمام قوانین کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ یہ نظام کسی کو بھی کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ایرانی نظام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جانب عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کرتا ہے تو دوسری جانب اپنے انقلابی نظریے کو پھیلانے کے ذریعے پورے خطے پر دباؤ ڈالتا ہے۔ یمن، عراق، لبنان اور شام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔
آخری انتخابات میں ہم نے دیکھ لیا کہ عوام کی شرکت کا تناسب کم ترین سطح پر تھا۔ میں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ اس طرح کے نظام میں ووٹنگ اس نظام کو قانونی حیثیت دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ووٹنگ کے عمل کا لوگوں کے انجام کار کو متعین کرنے میں کوئی کردار نہیں۔
دوسروں کے امور میں مداخلت کے لیے تہران کو بحران تخلیق کرنے کی اشد ضرورت :
ایرانی نظام کے کئی مقاصد ہیں جن میں ایک مقصد اپنے نظریے کو پھیلانا ہے تاکہ نظام باقی رہ سکے۔ اس کا علاقائی رسوخ اور دوسروں کے امور میں مداخلت صرف بحران زدہ اور غیرمستحکم فضاؤں میں ہی ممکن ہے۔ اس نظام کی سوچ عصری خلیفہ کے پرچم تلے علاقائی کنٹرول حاصل کرنے پر مبنی ہے۔ اس کے نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا مطلب ضروری نہیں کہ وہ اسرائیل پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ یہ اس لیے ہے تاکہ نیوکلیئر دھمکی کے ذریعے وہ روایتی عسکری محاذ قائم کرسکے جس کا کوئی مقابلہ نہ کرپائے۔
.................................................


do qomi nezryah pakistan and quran دو قومی نظریہ پاکستان، نسل و قوم پرستی اور قرآن

$
0
0


بہت لوگ جو مسلمان کہلانے کے دعویدار ہیں مگر نسل ، زبان کی بنیاد پر قومیت پر یقین رکھتے ہیں- ایسے لوگ ٧٠ سال پہلے بھی ہندوستان میں موجود تھے، انہوں نے ڈٹ کر پاکستان کی مخالفت کی اور انڈین کانگریس کا ساتھ دیا- ان میں علماءاورسیاسی پارٹیاں شامل تھیں- 1947 کو پاکستان کے معرض وجود میں انے کے بعد وہ لوگ پاکستان کی سیاست میں شامل ہو گئے- امید تھی کہ وہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفادار ہو کر اس کی تعمیر و ترقی میں بھر پور حصہ لیتے مگر انہوں نے اپنی شکست کو تسلیم نہ کیا اور اس ملک کے خلاف اپنی جدو جہد کو جاری رکھا ہوا ہے- آیین پاکستان سے وفاداری کا حلف بھی اٹھاتے ہیں، حکومت میں شامل بھی ہوتے ہیں مگر پاکستان کی مخالفت بھی جاری رکھے ہوے ہیں-
یہ لوگ اپنے آپ کو قوم پرست کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں- کچھ تو کھلم کھلا پاکستان مخالفت میں بولتے ہیں(کچھ پر انڈیا اور افغانستان سے مدد کے الزام بھی ہیں). زبان اور مقامی کلچر کی ترقی کی ضمانت آیین دیتا ہے- مگر حدود سے پار ہو کر اب آزادی کے ستر سال نظریہ پاکستان کی بے جا مخالفت سوالات کھڑے کرتی ہے-
یہ لوگ اپنے پروپیگنڈا سے نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں- دو قومی نظریہ پاکستان کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہیں:

دو قومی نظریہ اور قرآن:

دو قومی نظریہ جس کی بنیاد پر 1947 میں انڈیا کی تقسیم ہوئی اور پاکستان بنایا گیا، اس کا اعلان سب سے پہلے خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہے،امّتِ محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسری تمام امتوں نے حسب ہدایت یہی طریقہ اختیار کیا، اور عام طور پر مسلمانوں میںقومیت اسلاممعروف ہوگئی، حجة الوداع کے سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک قافلہ ملا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم کس قوم سے ہو، تو جواب دیا:
نحن قوم مسلمون (بخاری)
اس میں عرب کے سابقہ دستور کے مطابق کسی قبیلہ یا خاندان کا نام لینے کے بجائے مسلمون کہہ کر اس حقیقی قومیت کا بتلا دیا جو دنیا سے لے کر آخر تک چلنے والی ہے-
اس نظریہ کی بنیاد قرآن سے ہے:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةًۖإِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٧٤وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًاۖقَالَ هَـٰذَا رَبِّيۖفَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ﴿٧٦فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَبِّيۖفَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَبِّي هَـٰذَا أَكْبَرُۖفَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿٧٨إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًاۖوَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٧٩وَحَاجَّهُ قَوْمُهُۚقَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانِۚوَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًاۗوَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًاۗأَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿٨٠وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًاۚفَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِۖإِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨١
ترجمہ:
اور یاد کر جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ آزر کو کیا تو مانتا ہے بتوں کو خدا، میں دیکھتا ہوں کہ تو اور تیری قوم صریح گمراہ ہیں (کافر قوم)اور اسی طرح ہم دکھانے لگے ابراہیم کو عجائبات آسمانوں اور زمینوں کے اور تاکہ اس کو یقین آ جاوے پھر جب اندھیرا کرلیا اس پر رات نے دیکھا اس نے ایک ستارہ بولا یہ ہے رب میرا پھر جب وہ غائب ہو گیا تو بولا میں پسند نہیں کرتا غائب ہو جانے والوں کو پھر جب دیکھا چاند چمکتا ہوا بولا یہ ہے رب میرا پھر جب وہ غائب ہو گیا بولا اگر نہ ہدایت کرے گا مجھ کو رب میرا تو بیشک میں رہوں گا گمراہ لوگوں میں پھر جب دیکھا سورج جھلکتا ہوا بولا یہ ہے رب میرا یہ سب سے بڑا ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا بولا اے میری قوم میں بیزار ہوں ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو میں نے متوجہ کرلیا اپنے منہ کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمانوں اور زمین سب سے یک سو ہو کر اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والا -


دو قومی نظرئیے مسلمان ایک قوم اور کافر دوسری قوم ہے
نیز اسآیت (٦:٨٤)میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے خاندان اور قوم کی نسبت اپنی طرف کرنے کے بجائےباپ سے یہ کہا کہتمہاری قوم گمراہی میں ہے ،اس میں اس عظیم قربانی کی طرف اشارہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا کی راہ میں اپنی مشرک برادری سے قطع تعلق کرکے ادا کی اور اپنے عمل سے بتلا دیا کہ مسلم قومیت رشتہ اسلام سے قائم ہوتی ہے ، نسبی اور وطنی قومیتیں اگر اس سے متصادم ہوں تو وہ سب چھوڑ دینے کے قابل ہیں
ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد
فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد
قرآن کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو ذکر کرکے آئندہ آنے والی امتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں، ارشاد ہے:
(آیت) قد کانت لکم اسوة حسنة
یعنی امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اسوہ حسنہ اور قابل اقتداء ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا یہ عمل کہ انہوں نے اپنی نسبی اور وطنی برادری سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے غلط معبودوں سے بیزار ہیں، اور ہمارے تمھارے درمیان بغض و عداوت کی دیوار اس وقت تک حائل ہے جب تک تم ایک اللہ کی عبادت اختیار نہ کرلو ۔

معلوم ہوا کہ یہ دو قومی نظرئیے ہیں جس نے پاکستان بنوایا ہے، اس کا اعلان سب سے پہلے خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہے،امّتِ محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسری تمام امتوں نے حسب ہدایت یہی طریقہ اختیار کیا، اور عام طور پر مسلمانوں میں قومیت اسلام معروف ہوگئی، حجة الوداع کے سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک قافلہ ملا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم کس قوم سے ہو، تو جواب دیا:
نحن قوم مسلمون (بخاری)
اس میں عرب کے سابقہ دستور کے مطابق کسی قبیلہ یا خاندان کا نام لینے کے بجائے مسلمون کہہ کر اس حقیقی قومیت کا بتلا دیا جو دنیا سے لے کر آخر تک چلنے والی ہے-
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس جگہ اپنے باپ سے خطاب کے وقت تو برادری کی نسبت ان کی طرف کرکے اپنی بیزاری کا اعلان فرمایا اور جس جگہ قوم سے اپنی بیزاری اور قطع تعلقی کا اعلان کرنا تھا وہاں اپنی طرف منسوب کرکے خطاب کیا، جیسے اگلی آیت میں ہے:
اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
یعنی اے میری قوم! میں تمھارے شرک سے بیزار ہوں۔ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ نسب و وطن کے لحاظ سے تم میری قوم ہو، لیکن تمھارے مشرکانہ افعال نے مجھے تمھاری برادری سے قطع تعلق کرنے پر مجبور کر دیا۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی برادری اور ان کے باپ دوہرے شرک میں مبتلا تھے کہ بتوں کی بھی پرستش کرتے تھے، اور ستاروں کی بھی، اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی دونوں مسئلوں پر اپنے باپ اور اپنی قوم سے مناظرہ کیا
پہلے بت پرستی کا ضلالت و گمراہی ہونا ذکر فرمایا، اگلی آیات میں ستاروں کا قابل عبادت نہ ہونا بیان فرمایا، اور اس سے پہلے ایک آیت میں بطور تمہید کے حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی ایک خاص شان اور علم و بصیرت میں اعلیٰ مقام کا ذکر اس طرح فرمایا :
وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ
یعنی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات کو اس طرح دکھلا دیا کہ ان کو سب چیزوں کی حقیقت و اشگاف طور پر معلوم ہوجائے، اور ان کا یقین مکمل ہو جائے اسی کا نتیجہ تھا جو بعد کی آیات میں ایک عجیب طرح کے مناظرہ کی شکل میں اس طرح مذکور ہے :


خلاصہ تفسیر
اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (نام) سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے، بیشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو (جو اس اعتقاد میں تیرے شریک ہیں) صریح غلطی میں دیکھ رہا ہوں (اور ستاروں کے متعلق آگے گفتگو آئے گی، درمیان میں ابراہیم (علیہ السلام) کا صحت نظر کے ساتھ موصوف ہونا کہ ما قبل و ما بعد دونوں سے اس کا تعلق ہے فرماتے ہیں) اور ہم نے ایسی ہی (کامل) طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات (بچشم معرفت) دکھلائیں، تاکہ وہ (خالق کی ذات و صفات کے) عارف ہو جاویں اور تاکہ (ازدیار معرفت سے) کامل یقین کرنے والوں سے ہو جاویں (آگے ستاروں کے متعلق گفتگو کہ تتمہ مناظرہ کا ہے مذکور ہے کہ اوپر کی گفتگو تو بتوں کے متعلق ہو چکی) پھر (اسی دن یا کسی اور دن) جب رات کی تاریکی ان پر (اسی طرح اور سب پر) چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا (کہ چمک رہا ہے) آپ نے (اپنی قوم سے مخاطب ہوکر) فرمایا کہ (تمہارے خیال کے موافق) یہ میرا (اور تمہارا)....رب (اور میرے احوال میں متصرف) ہے (بہت اچھا، اب تھوڑی دیر میں حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے، چنانچہ تھوڑے عرصہ کے بعد وہ افق میں جا چھپا) سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا (اور محبت لوازم اعتقاد ربوبیت سے ہے پس حاصل یہ ہوا کہ میں رب نہیں سمجھتا) پھر (اسی شب میں یا کسی دوسری شب میں) جب چاند کو دیکھا (کہ) چمکتا ہوا (نکلا ہے) تو (پہلے ہی کی طرح) فرمایا کہ (تمہارے خیال کے موافق) یہ میرا (اور تمہارا) رب (اور متصرف فی الاحوال) ہے (بہتر اب تھوڑی دیر میں اس کی کیفیت بھی دیکھنا چنانچہ وہ بھی غروب ہوگیا) سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرا رب (حقیقی) ہدایت نہ کرتا رہے (جیسا اب تک ہدایت کرتا رہتا ہے) تو میں بھی (تمہاری طرح) گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں پھر (یعنی اگر چاند کا قصہ اسی قصہ کو کب کی شب کا تھا تب تو کسی شب کو صبح کو اور اگر چاند کا قصہ اسی قصہ کو کب کی شب کا نہ تھا تو قصہ قمر کی شب کی صبح کو یا اس کے علاوہ کسی اور شب کی صبح کو) جب آفتاب دیکھا (کہ بڑی آب و تاب سے) چمکتا ہوا (نکلا ہے) تو (پہلی دوبار کی طرح پھر) فرمایا کہ (تمہارے خیال کے موافق) یہ میرا (اور تمہارا) رب (اور متصرف فی الاحوال) ہے (اور) یہ تو سب (مذکورہ ستاروں) میں بڑا ہے (اس پر خاتمہ کلام کا ہو جاوے گا، اگر اس کی ربوبیت باطل ہوگئی تو چھوٹوں کی بدرجہ اولیٰ باطل ہو جاوے گی، غرض شام ہوئی تو وہ بھی غروب ہوگیا) سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار (اور نفور) ہوں (یعنی برأت ظاہر کرتا ہوں، اعتقاداً تو ہمیشہ سے بیزار ہی تھے) میں (سب طریقوں سے) یک سو ہو کر اپنا رخ (ظاہر کا اور دل کا) اس (ذات) کی طرف (کرنا تم سے ظاہر) کرتا ہوں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور میں (تمہاری طرح) شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں (نہ اعتقاداً نہ قولاً نہ عملاً) اور ان سے ان کی قوم نے (بیہودہ) حجت کرنا شروع کی (وہ یہ کہ رسم قدیم ہے (آیت) وجدنا اباءنا لھا عابدین، اور معبودان باطلہ کے انکار پر ڈرایا بھی کہ کبھی تم کو یہ کسی آفت میں نہ پھنسا دیں کما یدل علیہ الجواب بقولہ ولا اخاف الخ) آپ نے (پہلی بات کے جواب میں تو یہ) فرمایا کہ کیا تم اللہ (کی توحید) کے معاملہ میں مجھ سے (باطل) حجت کرتے ہو، حالانکہ اس نے مجھ کو (استدلال صحیح کا) طریقہ بتلا دیا ہے (جس کو میں تمہارے روبرو پیش کر چکا ہوں، اور محض رسم قدیم ہونا اس استدلال کا جواب نہیں ہو سکتا، پھر اس سے احتجاج تمہارے لئے بیکار اور میرے نزدیک غیر قابل التفات) اور (دوسری بات کے جواب میں یہ فرمایا کہ) میں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ (استحقاق عبادت میں) شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا (کہ وہ مجھ کو کوئی صدمہ پہنچا سکتے ہیں کیونکہ ان میں خود صفت قدرت ہی مفقود ہے اور اگر کسی چیز میں ہو بھی…..تو استقلال قدرت مفقود ہے) ہاں لیکن اگر پروردگار ہی کوئی امر چاہے (تو وہ دوسری بات ہے وہ ہو جاوے گی لیکن اس سے آلہہ دار باب باطلہ کی قدرت کا ثبوت یا ان سے خوف کی ضرورت کب لازم آئی اور) میرا پروردگار (جس طرح قادر مطلق ہے جیسا ان اشیاء سے معلوم ہوا اسی طرح وہ) ہر چیز کو اپنے (احاطہ) علم میں (بھی) گھیرے ہوئے ہے (غرض قدرت و علم دونوں اسی کے ساتھ مختص ہیں، اور تمہارے آلہہ کو نہ قدرت ہے نہ علم ہے) کیا تم (سنتے ہو اور) پھر (بھی) خیال نہیں کرتے اور (جس طرح میرے نہ ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمہارے معبود علم و قدرت سے محض معریٰ ہیں، اسی طرح یہ بات بھی تو ہے کہ میں نے کوئی کام ڈر کا کیا بھی تو نہیں تو پھر) میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے (اللہ تعالیٰ کے ساتھ استحقاق عبادت اور اعتقاد ربوبیت میں) شریک بنایا ہے، حالانکہ (تم کو ڈرنا چاہئے دو وجہ سے، اول تم نے ڈرکا کام یعنی شرک کیا ہے، جس پر عذاب مرتب ہوتا ہے، دوسرے خدا کا عالم اور قادر ہونا معلوم ہو چکا ہے، مگر) تم اس بات (کے وبال) سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن (کے معبود ہونے) پر اللہ تعالیٰ نے تم پر کوئی دلیل (لفظاً یا معنیً) نازل نہیں فرمائی (مطلب یہ کہ ڈرنا چاہئے تم کو پھر الٹا مجھ کو ڈراتے ہو) سو (بعد اس تقریر کے انصاف سے سوچ کر بتلاؤ کہ) ان دو (مذکورہ) جماعتوں میں سے (یعنی مشرکین و موحدین میں سے) امن کا (یعنی اس کا کہ اس پر خوف کا) اگر تم (کچھ) خبر رکھتے ہو ۔
معارف و مسائل
ان سے پہلی آیات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشرکین عرب کو خطاب اور بت پرستی چھوڑ کر صرف خدا پرستی کی دعوت کا بیان تھا۔
ان آیات میں اسی دعوت حق کی تائید ایک خاص انداز میں فرمائی گئی ہے، جو طبعی طور پر اہل عرب کے لئے دلنشین ہو سکتی ہے، وہ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تمام عرب کے جدِّ امجد ہیں اور اسی لئے سارا عرب ان کی تعظیم پر ہمیشہ سے متفق چلا آیا ہے، ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس مناظرہ کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے بت پرستی کے خلاف اپنی قوم کے ساتھ کیا تھا، اور پھر سب کو توحید حق کا سبق دیا تھا۔
پہلی آیت میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ تم نےاپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود بنا لیا ہے، میں تم کو اور تمہاری ساری قوم کو گمراہی میں دیکھتا ہوں ۔
مشہور یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام ہے اور اکثر مورخین نے ان کا نام تارخ بتلایا ہے اور یہ کہ آزر ان کا لقب ہے، اور امام رازی رحمة اللہ علیہ اور علماء سلف میں سے ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ اور چچا کا نام آزر ہے، ان کا چچا آزر نمرود کی وزارت کے بعد شرک میں مبتلا ہوگیا تھا، اور چچا کو باپ کہنا عربی محاورات میں عام ہے، اسی محاورہ کے تحت آیت میں آزر کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ فرمایا گیا ہے، زرقانی نے شرح مواہب میں اس کے کئی شواہد بھی نقل کئے ہیں ۔
اصلاح عقائد و اعمال کی دعوت اپنے گھر اور خاندان سے شروع کرنی چاہیے
آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد ہوں یا چچا بہر حال نسبی طور پر ان کے قابل احترام بزرگ تھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے دعوت حق اپنے گھر سے شروع فرمائی، جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کا حکم ہوا ہے (آیت) وانذر عشیرتک الاقربین، یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو خدا کے عذاب سے ڈرائیے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ماتحت سب سے پہلے اپنے خاندان ہی کو کوہ صفا پر چڑھ کر دعوت حق کے لئے جمع فرمایا۔
تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر خاندان کے کوئی واجب الاحترام بزرگ دین کے صحیح راستہ پر نہ ہوں تو ان کو صحیح راستہ کی طرف دعوت دینا احترام کے خلاف نہیں بلکہ ہمدردی و خیر خواہی کا تقاضا ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت حق اور اصلاح کا کام اپنے قریبی لوگوں سے شروع کرنا سنت انبیاء ہے۔
دو قومی نظرئیے مسلمان ایک قوم اور کافر دوسری قوم ہے
نیز اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے خاندان اور قوم کی نسبت اپنی طرف کرنے کے بجائےباپ سے یہ کہا کہ تمہاری قوم گمراہی میں ہے ،اس میں اس عظیم قربانی کی طرف اشارہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا کی راہ میں اپنی مشرک برادری سے قطع تعلق کرکے ادا کی اور اپنے عمل سے بتلا دیا کہ مسلم قومیت رشتہ اسلام سے قائم ہوتی ہے ، نسبی اور وطنی قومیتیں اگر اس سے متصادم ہوں تو وہ سب چھوڑ دینے کے قابل ہیں
ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد
فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد
قرآن کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو ذکر کرکے آئندہ آنے والی امتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں، ارشاد ہے :

(آیت) قد کانت لکم اسوة حسنة
یعنی امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اسوہ حسنہ اور قابل اقتداء ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا یہ عمل کہ انہوں نے اپنی نسبی اور وطنی برادری سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے غلط معبودوں سے بیزار ہیں، اور ہمارے تمھارے درمیان بغض و عداوت کی دیوار اس وقت تک حائل ہے جب تک تم ایک اللہ کی عبادت اختیار نہ کرلو ۔

معلوم ہوا کہ یہ دو قومی نظرئیے ہیں جس نے پاکستان بنوایا ہے، اس کا اعلان سب سے پہلے خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہے،امّتِ محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسری تمام امتوں نے حسب ہدایت یہی طریقہ اختیار کیا، اور عام طور پر مسلمانوں میں قومیت اسلام معروف ہوگئی، حجة الوداع کے سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک قافلہ ملا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم کس قوم سے ہو، تو جواب دیا:
نحن قوم مسلمون (بخاری)
اس میں عرب کے سابقہ دستور کے مطابق کسی قبیلہ یا خاندان کا نام لینے کے بجائے مسلمون کہہ کر اس حقیقی قومیت کا بتلا دیا جو دنیا سے لے کر آخر تک چلنے والی ہے-
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس جگہ اپنے باپ سے خطاب کے وقت تو برادری کی نسبت ان کی طرف کرکے اپنی بیزاری کا اعلان فرمایا اور جس جگہ قوم سے اپنی بیزاری اور قطع تعلقی کا اعلان کرنا تھا وہاں اپنی طرف منسوب کرکے خطاب کیا، جیسے اگلی آیت میں ہے:
اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
یعنی اے میری قوم! میں تمھارے شرک سے بیزار ہوں۔ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ نسب و وطن کے لحاظ سے تم میری قوم ہو، لیکن تمھارے مشرکانہ افعال نے مجھے تمھاری برادری سے قطع تعلق کرنے پر مجبور کر دیا۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی برادری اور ان کے باپ دوہرے شرک میں مبتلا تھے کہ بتوں کی بھی پرستش کرتے تھے، اور ستاروں کی بھی، اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی دونوں مسئلوں پر اپنے باپ اور اپنی قوم سے مناظرہ کیا
پہلے بت پرستی کا ضلالت و گمراہی ہونا ذکر فرمایا، اگلی آیات میں ستاروں کا قابل عبادت نہ ہونا بیان فرمایا، اور اس سے پہلے ایک آیت میں بطور تمہید کے حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی ایک خاص شان اور علم و بصیرت میں اعلیٰ مقام کا ذکر اس طرح فرمایا :
وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ
یعنی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات کو اس طرح دکھلا دیا کہ ان کو سب چیزوں کی حقیقت و اشگاف طور پر معلوم ہوجائے، اور ان کا یقین مکمل ہو جائے اسی کا نتیجہ تھا جو بعد کی آیات میں ایک عجیب طرح کے مناظرہ کی شکل میں اس طرح مذکور ہے :
http://www.elmedeen.com/read-book-1271&&page=377viewer-text&viewer=text#page-380&viewer-text

Must Read:
  1. http://pakistan-posts.blogspot.com/p/why-pakistan.html
  2. http://pakistan-posts.blogspot.com/2017/05/nazryah-pakistan.html
  3. http://salaamforum.blogspot.com/2017/02/sectarianism.html
  4. http://defence.pk/threads/nwfp-history-referendum-and-the-pakhtunistan-demand.39251/
  5. https://en.wikipedia.org/wiki/Khyber_Pakhtunkhwa
  6. https://ur.wikipedia.org/wiki/خیبر_پختونخوا
  7. پشتون مغالطے:
کچھ دن پہلے ایک صاحب نے مطالعہ پاکستان کو بےہودہ ثابت کرنے کے لیے ایسے سوالات کیے ہیں جن کا فہم و دانش سے کوئی تعلق نہیں بلکہ زمینی حقائق سے دور چونکہ چنانچہ اور اگر مگر جیسے فرضی سوالات ہیں۔ اپنے نظریہ کی ترویج کے لیے لکھنا اور دوسرے کی فکر کا رد کرنا اہل علم کا اسلوب ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا کہ دوسرے کے نظریے کو ”بےہودہ“ قرار دیا جائے۔ کیا سوسائٹی کی کثیر تعداد کے نظریے کو جو آئینی اور ہر لحاظ سے ہر شہری کے لیے معتبر ہے، اس کو یوں اپنی دانشوری کے زعم میں ”بےہودہ“ کہنا کیا بدتہذیبی نہیں۔ لیکن کیا کہیے کہ سیکولرزم و جمہوریت کی بنیادی اقدار آزادی اظہار رائے پر عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تہذیب کا کچھ زیادہ لینا دینا نہیں رہا۔ سوالات کا پلندہ تیار کرنے والے صاحب نے شاید اندرا گاندھی کے بعد خود کو دوسرا شخص سمجھا جس نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا سہرا اپنے سر لیا، لیکن کوئی بتائے ان کو کہ نظریات کو ڈبویا نہیں جا سکتا۔ خود بنگال والے بھی ایک قومی نظریے کے تحت ہندوستان میں ضم نہیں ہوئے بلکہ الگ ملک ہی ہیں. کوشش کی ہے کہ ان سوالات کا معتدل انداز میں جواب دیا جائے، انسانی فطرت کی وجہ سے کہیں زیادتی بھی ہوسکتی ہے اس لیے کسی کی دل آزاری ہو تو معافی کی درخواست ہے ۔ https://daleel.pk/2016/09/22/8202



.................................................................................

دو قومی نظریۂ کے مخالف قائد اعظم رحمت الله علیہ کی گیارہ اگست انیس سو اڑتالیس کی تقریر کو جواز بنا کر ایک تو قائد اعظم رحمت الله علیہ کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ اس تقریر نے دو قومی نظریے کی نفی کر دی تھی یا قائد اعظم رحمت الله علیہ دو قومی نظریے پر یقین نہیں رکھتے تھے. ان لوگوں کو میں قائد اعظم رحمت الله علیہ کی ایک تقریر کے الفاظ یاد دلانا چاہتا ہوں جو قائد اعظم رحمت الله علیہ نے 8 مارچ 1944ء مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے. انہوں نے صاف بتا دیا تھا کہ دو قومی نظریۂ کیا ہے اور مسلمان قوم کی تعریف کیا ہے. آپ نے فرمایا

مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید’ ہے۔ نہ وطن ہے اور نہ نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ اپنی پہلی قوم کا فرد نہیں رہا۔ بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا

کچھ لوگ دو قومی نظریے کے متعلق اوٹ پٹانگ اور طرح طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں. یا تو انہیں پتہ ہو نہیں کہ دو قومی نظریۂ کیا ہے یا پھر وہ جان بوجھ کر کنفیوزن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.دو قومی نظریۂ ہندوؤں کے ایک قومی نظریے کے اس دعوے کا جواب ہے کہ ہندوستان میں ایک ہی قوم آباد ہے اور وہ ہندو ہے. اسکے علاوہ ہندوستان میں کسی قوم کا وجود نہیں ہے اور باقی سب ہندو قوم کا حصہ ہیں. مسلمانوں نے ہمیشہ ہندوؤں کے اس دعوے کی نفی کی اور کہا کہ ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں. ایک ہندو اور دوسرے مسلمان. سادہ ترین الفاظ میں یہی دو قومی نظریۂ ہے. دو قومی کو پہلے سمجھ لیں تو بات کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی

انڈین نیشنل کانگریس یہ دعوا کرتی تھی کہ وہ ہندوستانیوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے اور ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے. ہندوستان کے مسلمانوں نے سب سے پہلے کانگریس کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی کہ مسلمان ہندوؤں ہر لحاظ سے الگ قوم ہے اور انہیں ہندوستان کے اندر انکی آبادی کے لحاظ سے انکے جائز حقوق دیے جائیں. جب کانگریس نے انکار کیا تو انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا. آغاز میں وہ ہندوستان کے اندر رہ کر مسلمانوں کے جدا قوم ہونے اور انکے حقوق کی جدوجہد کی. ایک مقام پر مسلمانوں کو جدا قوم ماں کر جداگانہ انتخاب کا حق دے دیا گیا لیکن جب برطانیہ نے ہندوستان چھوڑ کر واپس جانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے پھر کانگریس کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق کے لیے بات چیت کی لیکن کانگریس کی ہت دھرمی سے مایوس ہو کر مسلمانوں نے ایک علیحدہ ملک کی جدوجہد شروع کی جو قیام پاکستان پر ختم ہوئی. دو قومی نظریے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا اور ہے کہ مسلمان ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہے

سرسید احمد خان نے 1883ء میں کہا

ہندوستان ایک ملک نہیں’ یہ براعظم ہے اور یہاں مختلف نسلوں اور روایات کے لوگ آباد ہیں. ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں’ ہندو اور مسلمان

علامہ اقبال رحمت الله علیہ نے بھی اپنے خطبہ الہ آباد میں یہی پیغام دیا تھا کہ مسلمان چونکہ ایک الگ قوم ہے اس لیے انکے اکثریتی علاقوں پر مشتمل سٹیٹس بنا کر انہیں ہندوستان کے اندر رہ کر خود مختاری دی جائے

قائداعظم محمد علی جناح نے 8 مارچ 1944ء مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا

پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید’ ہے۔ نہ وطن ہے اور نہ نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ اپنی پہلی قوم کا فرد نہیں رہا۔ بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی قصبہ اور ایک ہی شہرمیں رہنے کے باوجود کسی ایک قوم میں مدغم نہیں ہوسکتے۔ وہ ہمشیہ دو علیحدہ قوموں کی حیثیت سے رہتے چلے آرہے ہیں

چند ماہ کے بعد قائداعظمؒ نے ہندوئوں کے لیڈر موہن داس کرم چند گاندھی کو 17 ستمبر 1944 کو ایک خط لکھا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کی وضاحت ان الفاظ میں کی

ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ زبان اور ادب’ فنونِ لطیفہ’ فنِ تعمیرات’ نام اور نام رکھنے کا طریقہ’ اقدار اور تناسب کا شعور’ قانونی اور اخلاقی ضابطے’ رسوم اور جنتری’ تاریخ اور روایات’ رجحانات اور امنگیں… ہر ایک لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویۂ نگاہ اور فلسفۂ حیات ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف کے مطابق ہم ایک قوم ہیں

ایک چیز ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ دوقومی نظریہ پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے اور پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد نہیں ہے. دو قومی نظریے نے پاکستان کو جنم دیا ہے پاکستان نے دو قومی نظریے کو جنم نہیں دیا ہے. پاکستان کے قیام کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دو قومی نظریۂ ختم ہوگیا ہے جیسا کہ کچھ لوگ سیکولر لوگ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں.دو قومی نظریہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بر صغیر ہند میں مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں. مسلمان ہندو قوم کا حصہ نہیں ہیں. بلکہ وہ سب سے الگ ایک قوم ہے. یہ نظریۂ پاکستان بننے سے پہلے بھی موجود تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی موجود ہے. اور اسوقت تک موجود رہے گا جب تک برصغیر میں ایک بھی مسلمان باقی ہے. پاکستان کا قیام یا بنگلہ دیش کا قیام کسی طرح بھی دو قومی نظریۂ ختم نہیں کر سکتا. دو قومی نظریۂ ملکی سرحدوں کا محتاج نہیں ہے. نہ تو پاکستان بننے سے مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ختم ہوتا ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش بننے سے. اگر پاکستان بننے سے دو قومی نظریۂ ختم ہو چکا ہوتا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر اندرا گاندھی یوں بدبودار اور زہر آلود الفاظ میں مسلمانوں کو مخاطب نہ کرتی

ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا

اندرا گاندھی کے الفاظ پڑھ کر سب پر عیاں ہو جانا چاہیے کہ دو قومی نظریۂ کیا ہے اور اسکا تعلق پاکستان یا بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ مسلمان قوم سے ہے کیونکہ ایک ہزار سال پہلے نہ پاکستان کا وجود تھا اور نہ بنگلہ دیش کا. اندرا گاندھی نے ایک متعصبانہ ہندو ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانیوں کو نہیں، پاکستان کے مسلمانوں کو نہیں، پاکستان کے ہندوؤں کو نہیں، پاکستان کے عیسائیوں کو نہیں، پاکستانی فوج کو نہیں، پاکستانی حکومت کو نہیں بلکہ مجموعی طور پر برصغیر کے مسلمانوں کو مخاطب کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم (ہندوؤں) نے مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اور مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کا نظریۂ اٹھا کر خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے. اندرا گاندھی کے یہ الفاظ پاکستان کے مسلمانوں کے نہیں بلکہ علمائے ہند کے کانگریسی مسلمانوں کے منہ پر ایک طماچہ تھا. اسکے علاوہ یہ سیکولر بھارت کا راگ الاپنے والے سرخوں اور نام نہاد ترقی پسند سول سوسایٹی کے منہ پر بھی ایک زبردست تھپڑ ہے جو دو قومی نظریے کی مخالفت میں دن رات لگے رہتے ہیں. دو قومی نظریۂ کل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے اور اسوقت تک زندہ رہے گا جب تک برصغیر میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے

مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے کسی طرح بھی اس دو قومی نظریے کو غلط ثابت نہیں کیا. کیا بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ مسلمان اور ہندو ایک قوم ہیں؟ کیا وہ دوبارہ سے ہندوستان میں شامل ہوگئے ہیں؟ کیا پاکستان بننے سے دو قومی نظریۂ کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں ختم ہوگیا ہے؟

ایک چیز اور واضح کرتا چلوں کہ مسلمانوں کے نزدیک قومیت کا ایک بنیادی تصور یہ ہے پوری دنیا کے مسلمان ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو جغرافیائی سرحدوں کی پابند نہیں ہے

چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا - مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اسکے علاوہ ایک قومیت کا نسبتا چھوٹا تصور ہے جو ملکی سرحدوں کا پابند ہے. پاکستانی، بنگلہ دیشی، ایرانی، برطانوی، امیرکن یا کینیڈین اسکی مثالیں ہیں. اسکے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے قومیت کے تصور ہیں، مثلا پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، مغل، جٹ، سید، آرائیں، شیخ وغیرہ وغیرہ-

---------------------------------------------------------------------------
اسلام میں برتری کا معیار

برتری نسل سے نہیں ، بلکہ تقوی سے:
اس میں شک نہیں کہ بہت سی جنگوں اور خونریزیوں کا سرچشمہ نسل پرستی تھے خصوصا دنیا کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم جو  تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ انسانی جانوں کی بتاہی اور آبادی کی ویرانی کا باعث ہوئیں اس میں آلمانیوں (نازیوں) کی نسل پرستی کے جنون سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔
اگر طے ہوجائے کہ دنیا کے نسل پرستوں کی صف بندی کی جائے یا فہرست مرتب کی جائے تو یہودی پہلی لائن میں ہوں گے۔
اس وقت بھی انہوں نے جو حکومت اسرائیل کے نام سے تشکیل دی ہے اسی نسلی تفاخر کی بنیاد پرہے اور اس کی تشکیل میں وہ کیسے مظالم کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس کی بقاء کے لئے کیسی کیسی دہشت ناکیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔
حالت تو یہ ہے کہ دین موسوی کو بھی اپنی نسل میں محصور سمجھتے ہیں اور نسل یہود کے علاوہ کوئی یہودی مذہب قبول کرے تو یہ ان کیلیئے کوئی توجہ طلب بات نہیں اسی لئے تو وہ دیگر اقوام میں اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج نہیں کرتے اسی وجہ سے وہ ساری دنیا میں نفرت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے، ہیں کیونکہ دنیا کے لوگ ایسے اشخاص کو ہرگز پسند نہیں کرتے جو دوسروں کے مقابلے میں اپنے نسلی امتیاز کے قائل ہوں ۔
اصولی طور پر نسل پرستی شرک کی ایک قسم ہے اسی لئے تو اسلام سختی سے اس کا مقابلہ کرتاہے اور تمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد قرار دیتاہے جن کا امتیاز فقط تقوی و پرہیزگاری ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌO(القرآن، الحجرات، 49 : 13)
”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے طبقات اور قبیلے بنا دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک اللہ کے نزدیک تو تم سب میں عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو، بے شک اللہ سب کچھ جانتا باخبر ہےo“

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ (الحجرات 49:13)  ’’اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘
اسی اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشہور خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ اے لوگو! سنو تمہارا رب ایک رب ہے، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔ فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے۔‘‘
قرآن و حدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کسی ذات پات، رنگ، نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیادنہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقوی اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی اپنی نیکیوں کی بنیاد پر دوسروں کو حقیر تو سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہی اسے کمتر قرار دے سکتا ہے ورنہ اس کا اپنا تقوی خطرے میں پڑ جائے گا۔
دین اسلام کسی نسلی مذہب کا نام نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہدایت ہے جو آفاقی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص اگر اپنے رب کی طرف خلوص نیت سے مائل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے کھلی دعوت ہے کہ وہ اس دین کا انتخاب کرلے۔ قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرکے کوئی بھی شخص ہر مسلمان کے برابر درجہ پاسکتا ہے اور اس میں کسی ذات پات یا رنگ و نسل کی قید نہیں۔
اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے طرز عمل سے اللہ کی حجت تمام کریں اور انہیں اس کے دین کا پیغام پہنچائیں۔ دعوت دین کے لئے محبت، شفقت، نرمی اور عدل و احسان مطلوب ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان پایا جاتا ہے۔

زبان اور علاقے کی بنیاد پر امتیاز (Geograhpic & Ethnic Discrimination)
چونکہ ہمارے ملک میں مختلف صوبے لسانی بنیادوں پر قائم ہیں اس لئے ہمارے ہاں لسانی اور صوبائی تعصب ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے بادشاہ نیشنلزم کے جذبے کو فروغ دیتے آرہے ہیں لیکن اس تعصب کو صحیح معنوں میں اہل مغرب ہی نے عروج بخشا ہے۔ اہل حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے علاقائیت پرستی اور لسانیت پرستی کو فروغ دیتے آئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی تھی کہ ان بنیادوں پر قوم میں کٹ مرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ یہ لوگ حکمرانوں کے اقتدار کی حفاظت دل وجان سے کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی تبدیلی سے غریب طبقے کو عموماً کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہی وہ طبقہ ہے جو قوم پرستی کے جذبے کے تحت اپنے حاکم کے لئے جان لڑا دیتا ہے۔
اہل مغرب کے ہاں قوم پرستی کا یہ جذبہ اس قدر ترقی پا گیا کہ اس کی بنیاد پر پچھلی صدی نے دو ایسی جنگوں کا سامنا کیا جن کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ انگریزوں سے دوسرے نظریات کی طرح قوم پرستی کا نظریہ بھی ہندوؤں میں منتقل ہوا۔ 1930  کے عشرے تک یہ قوم پرستی جنون کی صورت اختیار کرچکی تھی۔ اگرچہ شیوا جی مرہٹہ کے دور میں بھی ہندو قوم پرستی کو فروغ حاصل ہوا تھا لیکن احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں مرہٹوں کی شکست کے نتیجے میں اس کے اثرات خاصے زائل ہوچکے تھے۔
اس کے رد عمل میں مسلمانوں میں بھی ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کے نظریے نے جنم لیا۔ حقیقتاً اس مسلم قوم پرستی کی بنیاد اسلام پر نہ تھی بلکہ اس بات پر تھی کہ نسلی مسلمان ایک قوم ہیں۔ اس قوم پرستی کی تحریک پر ان لیڈروں نے قبضہ کرلیا جا کا اسلام سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ اسلام کا نعرہ محض نمائشی طور پر لگایا گیا تھا۔ اس بات کا اندازہ مسلمانوں کے ایک رہنما کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے مسلمان رئیسوں کو اس بات کی ترغیب دی تھی کہ وہ صرف مسلمان طوائفوں کے پاس ہی جایا کریں تاکہ ان کی دولت سے ہندو طوائفیں فیض یاب نہ ہوسکیں اور مسلم دولت ، مسلم ہاتھوں ہی میں رہے۔
مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لئے ہمارا ہر فعل اسلامی ہے خواہ اس کا دین کے اصل ماخذوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اسلام کے حکم اور مقصد کے عین خلاف سودی ادارے قائم کئے گئے جنہیں مسلم بینکوں کا نام دیا گیا، اسلامی تعلیما ت کے برعکس مرد وزن کے بے حجابانہ اختلاط کو فروغ دیا گیا اور بقول سید ابو الاعلی مودودی صاحب کے بس اسلامی قحبہ خانوں او ر اسلامی جوئے خانوں کی کسر ہی باقی رہ گئی تھی۔  (تفصیل کے لئے دیکھئے مسلمان او رموجودہ سیاسی کشمکش)
یہ قوم پرستی صرف مسلم تک ہی محدود نہ رہی بلکہ مسلمانوں کے مختلف لسانی گروہ اس کا شکار ہوئے۔ مسلمانوں نے اسلام کا نام استعمال کرکے پاکستان حاصل تو کرلیا لیکن جیسے ہی ہندو قوم پرستی کا خطرہ ٹلا، مسلم قوم پرستی ، صوبائیت اور لسانیت میں تحلیل ہوگئی۔ صرف چوبیس سال کے عرصے میں اس قوم پرستی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرڈالا۔ اس کے بعد سے وطن عزیز پنجابی، سندھی ، پٹھان، بلوچ اور مہاجر کی قوم پرستیوں میں گھرا ہوا ہے۔ انہی قوم پرستیوں کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی دو عشرے تک خون اور آگ کی ہولی کا شکار رہا ہے۔ یہ قوم پرستیاں مفاد پرست طبقے کی پھیلائی ہوئی ہیں، ورنہ سندھ و پنجاب کا محکوم طبقہ یکساں طور پر اس طبقے کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے۔ ستم یہ ہے کہیہ مفاد پرست طبقہ اپنی طرف اٹھنے والے ہر قدم کا رخ مظلوم طبقے کو آپس میں لڑا کر یک دوسرے کی طرف موڑنے میں کامیاب رہا ہے۔
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے لیڈر اور عوام صحیح اسلامی روح کے ساتھ ایک امت مسلمہ بننے کی کوشش کرتے اور انہی بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کی کوشش کرتے تو نہ بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی کوئی اور لسانی جھگڑا کھڑا ہوتا۔
ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق و صداقت کا پرچار کرے۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں ہر قسم کے امتیاز سے بچ کر خالصتاً اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ہمارے لئے شرم کا باعث  ہے کہ ہمارے پاس ہدایت کا نور ہوتے ہوئے بھی اہل مغرب ان نسلی، علاقائی، مذہبی، اور لسانی تعصبات سے نجات حاصل کرنے میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ وہاں امتیاز کے خلاف (Anti-Discrimination)   قوانین بنائے جاچکے ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام الناس میں اس کا شعور بھی بیدار کیا جارہا ہے۔

اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے ہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کے خلاف دین اسلام کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلامی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے۔

فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہ جِھَادًا کَبِیْرًاo (الفرقان ۲۵:۵۲)
اے نبی! کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔
اسلام نے فرد کو فکرونظر کی پوری آزادی عطا کی۔ اس نے انسان کو جبری غلامی، معاشی استحصال، سیاسی جبر اور مذہبی اکراہ کی بندشوں سے پوری طرح آزاد کیا۔ آج جدید دور میں فکری آزادی کا سہرا فرانسیسی مفکر و فلسفی جان جاک روسو (۱۷۷۸ء۔۱۷۱۲ء) کے سر باندھا جاتا ہے، جس نے کہا تھا: انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر آج وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اُس فرمان کی صداے بازگشت ہے، جو امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب نے اپنے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص کو تنبیہہ کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایاتھا: ’’تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر دیا حالانکہ اُن کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا؟‘‘
اسلام نے آزادیِ ضمیر کی خاطر انسان کے شعور احساس کو بیدار کیا اور قانون سازی کے ذریعے خارجی حالات کو بھی سازگار بنایا۔ اللہ پر ایمان، اُمت مسلمہ کی وحدت، افراد کے اندر ذمہ داریوں کے اشتراک کا تصور، ساری انسانیت کی وحدت اوراس میں باہمی کفالت کا اصول، یہ وہ بنیادی قدریں ہیں جن پر زور دے کر اسلام کامل آزادیِ ضمیر کا نعرہ بلند کرتا ہے۔
………………………………

انسانیت کی بنیاد پر متحد ہوجاؤ

یہ دنیا تنوع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں مختلف فکر وخیال کے لوگ رہتے ہیں،جن کے مذاہب الگ ہیں۔ جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں اور الگ الگ طرز زندگی کے حامل ہیں۔ ان کے اندر رنگ و نسل کے اختلافات ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ ان اختلافات نے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں برپا کی ہیں اور خونریز معر کے ہوئے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر انسان نے انسان کا خون بہایا ہے تو کبھی زبان کے نام پر انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ کبھی علاقے اور رنگ ونسل کے اختلافات کے سبب آدمی نے آدمی کو غلامی کی زنجیریں پہنائی ہیں اور نوع انسانی کی اس فطری آزادی کا گلا گھونٹا ہے جو اس کا پیدائشی حق ہے۔ طاقت ور نے کمزور کو دبایا اور دولت مندوں نے غریبوں کے حقوق دبائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا نظام نہیں ہوسکتا جو سبھی کو ان کے حقوق دینے کی بات کرے؟ جہاں کوئی کمزور نہ ہو اور کسی کو طاقت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نا انصافی کرنے کی اجازت نہ ہو؟ جہاں چھوٹے اور بڑے کا فرق مٹ جائے اور رنگ و نسل کی تفریق سے اوپر اٹھ کر لوگ ایک دوسرے کے حقوق اور آزادی کا احترام کریں؟ ان سوالوں کا بس ایک جواب ہے کہ ایسا تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنے خالق و مالک کے قانون کو تسلیم کرلے اور اس کے حکم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا شروع کردے۔ جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے اور سب کے حقوق بھی برابر رکھے ہیں۔ اس نے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم حقوق نہیں دیئے ۔ یہ تو انسان ہے جو دوسرے انسان کے حق دبانے کی کوشش میں لگارہتا ہے ۔ وہ دوسروں کے حق مارکر اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ کرنے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ اگر خدائی احکام کی بات کریں تو اس میں سب کے حقوق برابر ہیں اور سب کو انسانیت کی بنیا د پر متحد ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ وحدت انسانی کی دعوت اللہ کے احکام کو مجموعہ ہے قرآن کریم جس میں اللہ نے بنی نوع انسان کے لئے اپنے احکام اتارے ہیں۔ وہ اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے اور ان پر رحم وکرم فرماتا ہے لہٰذا اس کے احکام بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف پہنچاکر خوش ہوتا ہے، ایک دوسرے کا حق مارکر وہ مسرت کا احساس کرتے ہیں مگر اللہ کو یہ باتیں پسند نہیں کیونکہ اس کی نظر میں اس کی تمام مخلوق برابر ہے اور کسی ایک کی تکلیف اس کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور اس قدر کہ کوئی ماں بھی اُتنی محبت نہیں کرسکتی۔ اس کی نظر میں اس کی مخلوقات برابر ہیں لہٰذا اس نے انھیں انسانیت کی بنیاد پر متحد ہونے کی دعوت بھی دی ہے۔ قرآن کریم کی سورہ انبیاء میں ہے: ’’اے لوگو! یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا پالنہار ہوں،تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘ د وسری جگہ سورہ مومنون میں بھی ایک لفظ کے فرق کے ساتھ یہی حکم دہرایا گیا ہے: ’’بیشک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، تو مجھ سے ڈرو۔‘‘ انبیاء سابقین کسی ایک خطے، ملک ، قبیلے یا قوم میں مبعوث کئے جاتے تھے مگر نبی اکرم ﷺ تمام انسانوں کے لئے رسول بن کر تشریف لائے لہٰذا اللہ نے قرآن میںآپ کو حکم دیا: ’’کہہ دیجئے ،اے لوگو! میں تم سارے انسانوں کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘ نبی کریم ﷺ ساری کائنات کے لئے نبی بن کر آئے اور آپ کے لائے ہوئے احکام سب کے لئے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔ قرآن انسانی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مختلف مذاہب، الگ الگ رنگ ونسل اور طبقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میل، محبت سے رہ سکیں۔ اسی لئے قرآن کا پیغام ہے کہ: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں نر اور مادہ میں پیدا کیا ہے اور خاندان وقبیلے بنائے ہیں۔ صرف اس لئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے ، جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ قرآن کریم کی یہ آیت وحدت انسانی کی بہترین مثال ہے۔ دنیا میں بسنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ لوگ خواہ خود کو ایک دوسرے سے برتر ظاہر کرتے ہوں مگر خود ان کے خالق کا فرمان ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ برابر ہیں اور ان میں سے نہ کوئی بڑا ہے اور نہ مرتبے کے لحاظ سے چھوٹا۔ اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو صرف تقویٰ اور خوف خداوندی کی بنیاد پر۔حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے جو خطبہ دیا تھا اس میں بھی آپ نے مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ کسی کو کسی پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ سب لوگ برابر ہیں اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ اور رسول نے اپنے احکام میں یہ بات واضح کردی ہے کہ حاکم ومحکوم، عربی و عجمی، سیاہ و سفید، کمزور و طاقت ور، مومن و کافرانسان ہونے کی حیثیت سے یکساں ہیں۔ وہ قانون کی نظر میں بھی برابر ہیں لہٰذا کسی کے ساتھ مذہب، ذات، رنگ و نسل یا علاقے کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا: بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے اسی تعلیم کا اثر تھا کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی سیاہ فام بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو سیدی کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے۔ وہ بلال جن کے حقوق سے مکہ نے غلام ہونے کے سبب انکار کیا۔جو ایک کمزور مسلمان ہونے کی وجہ سے اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔وہی بلال ایک قرآن تعلیم کے سبب تاریخ اسلام کی محترم ترین ہستی بن گئے۔ غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک قرآن کریم نے کسی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ کسی غیرمسلم کے ساتھ برا سلوک روا رکھے یا اس کے ساتھ نا انصافی کرے۔ یعنی قرآن نے مذہبی عصبیت کی بنیاد ہی کھود ڈالی۔ کیونکہ کوئی بھی انسان کسی مذہب کا عامل ہوسکتا ہے مگر اسی کے ساتھ وہ انسان بھی ہے اور اس کا حق ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا: ’’تو اگر(غیر مسلم) تمہارے پاس کسی فیصلے کے لئے آئیں تو ان سے اعراض کرلو اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف کرو،کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جس طرح سے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا،اسی طرح اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ غیرمسلم اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ انھیں اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔اگر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو یہ رضاکارانہ طور پر ہونا چاہئے نہ کہ اجباری طور پر۔ قرآن میں اس تعلق سے بھی فرمایا گیا کہ : ’’مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ: ’’تمہارے لئے تمہارا دھرم ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین‘‘ علاقہ و نسل پرستی کی مخالفت اسی طرح قرآنی مذہب کی نظر میں علاقائیت کے نام پر کسی تفرقہ پردازی کی اجازت نہیں اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ کیا جاسکتا ہے۔ عرب میں یہ فخر و غرور عام بات تھی کہ اہل عرب باقی دنیا کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے اور حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے حالانکہ اسلام کی نظر میں یہ کوئی برتری کی بات نہیں تھی۔ افریقہ کے لوگ سیاہ فام ہوتے ہیں جو غلام کے طور پر عرب لائے جاتے تھے لہٰذا ان کے ساتھ بھی بھید بھاؤ کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا تھا کہ ’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہیں۔‘‘ ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ بھی سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک مجلس میں سلمان فارسی، صہیب رومی اوربلال حبشی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ تینوں غیر عرب تھے۔ قیس بن مطاطیہ نامی ایک منافق نے دیکھا تو کہنے لگا کہ اوس وخزرج نے اگر پیغمبر اسلام کی حمایت کی تو حیرت کی بات نہیں لیکن یہ حمایت کرنے والے لوگ ان کے کیا لگتے ہیں؟مطلب یہ کہ ان فارسیوں، رومیوں اور حبشیوں کا تو رسول اللہ کی قومیت سے کوئی تعلق نہیں۔ حضرت معاذبن جبل نے جب یہ بات سنی تو اس کا گریبان پکڑ لیا اور بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں لے کر آئے اور واقعہ بیان کیا، جسے سن کر رسول اللہ ﷺ بہت غضبناک ہوئے اور لوگوں کو مسجد میں جمع کرکے فرمایا: ’’اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہے۔ باپ بھی ایک ہے۔ دین بھی ایک ہے۔ عربیت تم میں سے کسی کی ماں ہے نہ باپ۔ وہ ایک زبان ہے جو شخص اسے بولتا ہے وہ عرب ہے۔‘‘ یونہی ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو حبش زادہ کہہ دیا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے اندر ابھی بھی جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسان کو انسان بنایا تھا اور انھیں الگ الگ خانوں میں بانٹنے سے منع کیا تھا۔ کیونکہ وہ خواہ کسی بھی خطے کے ہوں اور ان کی قومیت جو بھی ہے لیکن وہ بہرحال ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں اور ایک ہی انسان کی اولاد ہیں۔ اس نسبت سے ان کے اندر اتحاد ہونا چاہئے۔ فارسی کے ایک مشہور صوفی شاعر شیخ سعدی شیرازی کہا ہے کہ: بنی آدم اعضائے یکدگرند کہ در آفرینش زِ یک جوہرند چو عضوے بہ درد آورد روزگار دگر عضو ہارا نماند قرار یعنی آدم کی اولاد ایک جسم کے مختلف اعضا کی طرح ہیں، کیونکہ ان کی پیدائش ایک ہی گوہر سے ہوئی ہے۔ جب جسم کے کسی ایک عضوکو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے عضو کو بھی چین و سکون نہیں ملتا۔ قرآن بار بار یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، اسی کے احکام کے مطابق زندگی گذارے مگر اسی کے ساتھ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے مطابق الگ الگ سوچ کے ہیں لہٰذا اس دنیا میں وحدت دین نہیں ہوسکتا لہٰذا کوئی بھی انسان اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لئے آزاد ہے البتہ اسے یہ مان لینا چاہئے کہ وہ انسان ہے اور انسانی بنیاد پر تمام انسانوں کا اتحاد ممکن ہے۔ وہ قومی، لسانی، اور نسلی بنیاد پر لوگوں کو ساتھ آنے کی دعوت نہیں دیتا کیونکہ یہ وہ بت ہیں جو اتحاد سے زیادہ اختلاف کا سبب بنتے ہیں۔

------------------------------
Links:


.........................................................

نظریہ ء پاکستان سے پاکستانی قوم تک

تحریر عارف کسانہ اسٹاک ہوم

ہم نے نظریہء پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔یہ الفاظ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے  17   دسمبر  سن  1971  میں سقوط ڈھاکہ کے ایک دن بعد  اپنی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہے تھے۔انہوں نے مزید کہا یہ کامیابی نہ ہماری کامیابی ہے نہ ہماری فوجوں کی کامیابی ہے ۔یہ کامیابی ہے حق پر مبنی نظریہ کی ۔اس نظریہ کے خلاف جو باطل پر مبنی تھا۔مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد ایک  باطل پر رکھی تھی۔اور ہم جو کہتے تھے وہ حق تھا۔یہ ان کے باطل نظریہ کی شکست ہے۔مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے پر اندرا گاندھی کا یہ بیان ان کی نظریہء پاکستان کے بارے میں ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔دوسری جانب پاکستان میں یہ روش بھی موجود ہے کہ یہاں ایک قوم نہیں بلکہ کئی قومیں آباد ہیں۔اور اس کے ساتھ جب دین کی بنیاد پر مبنی نظریہ جسے دو قومی نظریہ پاکستان بھی کہا جاتا ہے اسے ترک کر کے خطہء زمین کی بنیاد پر جب  پاکستانی قوم کی اصطلاح وضع کی گئی تو نظریہء پاکستان کو ہم نے خود عملاً پس پشت ڈال دیا تھا۔نظریہ یا آئیڈیالو جی وہ بنیادی تصورات ہوتے ہیں جن پرکسی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔آئیڈیالوجی اپنے اندر شدید قوت محرکہ رکھتی ہے۔اس میں بموں سے ذیادہ طاقت ہوتی ہے۔جب ہم نظریہء پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ تصورات اور آئیڈیالوجی  ہے جس کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔حصول مملکت کے لیے جس نظام کو منتخب کیا گیا تھا اور نظریہء پاکستان کی وضاحت بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے  مارچ انیس سو چوالیس میں علیگڑھ میں تقریر کرتے ہوئے یوں کی کہ پاکستان کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ظاہر ہے جو شخص مسلمان ہوا ہو گا وہ کلمہ طیہ پڑھ کر اور اس پر ایمان لا کر اور دائرہء اسلام میں داخل ہو ا ہو گا۔چنانچہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کلمہء طیبہ ٹھہری۔پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پھر کہا۔میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیانتدار آدمی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ مسلمان بجائے خود ہندوئوں سے ایک الگ قوم ہیں۔ہم دونوں میں صرف مذہب کا فرق نہیں بلکہ ہماری تاریخ اوثقافت بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے ولن ہیں۔مسلمان دیگر مذہب کے ماننے والوں سے الگ قوم ہیں۔اس کا عملی اعلان رسول پاک نے اعلان نبوت کے بعد کر دیا تھا۔کہ ابو جہل اور ابو لہب زبان و نسل ،وطن ثقافت اور کئی ایک جیسی چیزوں کے اعتبار رسول پاک سے الگ قوم  کے افراد تھے۔جبکہ سلمان فارسی صہیب روحیاور بلال حبشی مختلف زبان و نسل اور کلچر رکھنے کے باوجود اسی قوم کے فرد تھے۔جس کے ابو بکر اور حضرت علی تھے۔اسی دو قومی نظریہ کا اظہار جنگ بدر کے موقع پہ ہوا۔اور یوم فرقان نے واضع کر دیا کہ دنیا میں قوم کی بنیاد رنگ نسل اور کلچر پہ نہیں بلکہ مشترکہ نظریات تصور حیات اور دین پر ہے۔ اسی تصور کو سر سید احمد خان نے بر صغیر میں واضع کیااور قیام پاکستان کی پہلی اینٹ انہوں نے   24  مئی 1875   میں رکھیسرسید نے یہ شمع سیالکوٹ کے فرزند اقبال کے ہاتھوں میں دی۔یہ وہی اقبال تھا جو پہلے خاک وطن ہر ذرے کو آفتاب کہتا تھا۔اور اپنے نیشنلسٹ ہونے پر نازاں تھا پھر اقبال نے کہا ان تازہ خدائوں میں سب سے بڑا وطن ہےجو پیرہن اسکا ہے وہ مذہب کا کفن ہے۔جب عالمگیر انسانیت کو وطنیت کی بنیاد پر تقسیم کیا جانے لگا تو علامہ اقبال نے کہا:
یہ بت کہ تراشیدہء نوی ہے            غارت گر کا نشانہ دین نبوی ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے      اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہء دیرین زمانے کو دکھا دے  اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

کیونکہ اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سےقومیت اسلام کی جڑکٹتی ہے اس سےاور انہوں نے قومیت کا وہی واضع تصور دیا جسے پڑھ کر اور ایمان لا کر کوئی مسلمان کہلاتا ہے۔اپنی ملت سے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیایک طرف سرسید اقبال اور جناح دین کی بنیاد پر قومیت کی وضاحت کر رہے تھے تو دوسری طرف کچھ مسلمان رہنماء جن میںعلماء بھی شامل تھے اس نظریہ کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے ہندوئوں کی ہمنوائی کی بنیاد وطن کو قرار دے رہے تھے۔اور مسلمانوں اور ہندوئوں کو ایک ہی قوم کا فرد کہہ  رہے تھے۔انہی علماء میں سے ایک مولانا  حسین  احمد مدنی بھی تھے۔ جو کہہ  رہے تھے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔علامہ اقبال اس وقت بستر مرگ پہ تھے اور انہوں نے اپنا آخری معرکہ وہیں سے لڑا۔جب انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی کی آواز سنی تو ان کے دل سے ایک چیخ نکلی  اور کہا کہ :
عجم ہنوز نداندرموز دیں ورنہ                   زدیوبند حسین احمدایں چا ہ بوالعجبی استسرود برسرملت کہ منبراز وطن است               چہ بے خبر از مقام محمد عربی استبہ مصطفیآ برساں خوش راہ کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اوں نہ رسیدی تمام بو الہبی استیہ

نہائیت قابل غور الفاظ ہیں۔علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ رسول پاک کے مقام سے بے خبر ہو کر یہ کہا جا رہا ہے کہ ملت یعنی قوم وطن کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔حالانکہ یہ رسول پاک کی نسبت سے بنتی ہے۔اور ابھی تک وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پائے۔یہی نظریہ قیام پاکستان کی بنیاد بنا اور قرآن حکیم نے تو یہ  اعلان کر دیا ہے کہ جب مومنین کو زمین پر اختیار ہوتا ہے تو نظام صلواة و زکواة قائم کرتے ہیں۔( 24 / 11)اس سے مراد وہ مملکت ہے جو اسلامی نظریہ سے تشکیل پاتی ہے۔ورنہ نماز ادا کرنے اور زکواة دا ہونے کی اجازت تو ہر غیر مسلم ملک میں بھی ہے۔اس لیے زمین پر اختیار کی ضرورت نہیں۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے بھی بہت سے مواقع پر یہ کہا کہ ہمیں قرآن حکیم سے رہنمائی لینی چاہیے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظریہ کو پھر سے اجاگر کیا جائے تاکہ نوجوان نسل اس سے آگاہ ہو سکے کیونکہ بہت سے عناصر مملکت خداداد کی نظریاتی بنیادوں کو مسمار کرنے کے درپے ہیں۔اور بانیء پاکستان کو سیکولر شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جسے وہ سیکولر جناح کہتے ہیں اور سن  19 47  تقریر کی غلط تعبیر لیتے ہیں۔میں ان پر واضع کر دینا چاہتا ہوں کہ اس تقریر کے بعد قائد اعظم تیرہ ماہ زندہ رہے۔اس سے بعد کی تقریروں میں بھی قرآن سے رہنمائی اور نظریہ ء پاکستان کا اعادہ کرتے  رہے ہیں۔11  اگست   1947   میں انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کا کرتے ہو ئے  انکے تحفظ کایقین دلایا تھا مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ اپنے اس نظریہ سے رو گردانی کر چکے تھے جس کے تحت انہوں نے جدو جہد کی۔بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے حصول پاکستان کی خاطر اس نظریے کو اپنایا اور بعد میں اسے ترک کر دیا۔یہ بھی حقائق کے منافی ہے ۔ چودہ اگست انیس سو اڑتالیس کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر وہ اسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہتے ہیں۔پھر اس سے پہلے جو لائی انیس سو اڑتالیس میں قرآن سے رہنمائی لے کر مملکت کا نظام چلانے کی بات کرتے ہیں اور یہ تقریر آج بھی اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے۔سیکولر ازم کے پیامبروں سے میری یہ درخواست ہے کہ کیا وہ کوئی ایسی تحریر یا اسٹیٹ منٹ پیش کر سکتے ہیں جس میں جناح نے یہ کہا ہو کہ وہ ایک سیکولر اسٹیٹ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں یا یہ کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔مشہور مسیحی رہنماء مسٹر جوشو افضل دین نے اپنے پمفلٹ  Rational of pakistan constitution   میں قائد اعظم کی گیارہ اگست انیس سو اڑتالیس کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کہہ  دینا کہ تخلیق پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کوئی ایسی بات کہہ د ی ہے کہ جس سے اس بات کا مکان ہے کہ پاکستان کی بنیاد مہندم ہو جائے گی بالکل پاگل پن ہے قائد اعظم نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ پاکستان میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔مختصر الفاظ میں نظریہء پاکستان اور قائد کے اقوال کے مطابق ایسی مملکت تھی جس میں آزادی اور پابندی کی حدود قرآن کی رو سے معین ہوں۔جس میں کوئی قانون قرآن کے منافی نہ ہو اور نہ ہی مذہبی پیشوائوں کی اجارہ داری ہو۔جس کا جمہوری اور معاشی  نظام سچے اسلامی اصولوں اور اسوہء حسنیٰ کے مطابق ہو۔  قوم کے جس تصور کی تشریح سر سید ، اقبال اور جناح  نے کی اس کے مطابق قوم کی بنیاد خطہء  زمین کی  نسبت سے نہیں بلکہ مشترکہ  نظریہ ء حیات کی بنیاد پر بنتی ہے۔   اس اعتبار سے کسی ایک مملکت کے رہنے والے اس مملکت کے شہری تو ہو سکتے ہیں لیکن ایک قوم کے فرد  نہیں ہو سکتے۔  لہٰذا پاکستانی قوم کی اصطلاح بھی دو قومی نظریہ  اور نظریہء پاکستان کے منافی ہے۔  پاکستان میں رہنے والے اس کے شہری ہونے والے اس کے حقوق اور مراعات تو لے سکتے ہیں ۔وہ پاکستان کے شہری تو ہیں لیکن تمام پاکستانی ایک قوم کے فرد نہیں۔اگر ہم آج تمام پاکستانیوں کو ایک قوم مان لیں تو نظریہء پاکستان خود بخود ختم ہو جائے گا۔اور کسی اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ہم نے نظریہء پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ اندرا گاندھی کی یہ خوش فہمی تھی اور اس کی آتماء کو آج بھی شانتی نہ ہو گی کیونکہ پاکستان آج بھی ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔اور دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے۔اور جس مشرقی پاکستان کو انہوں نے الگ کر کے بنگلہ دیش بنا دیا تھا۔اس نے بھی دو ہزار گیارہ میں یہ شق اپنے آئین میں شامل کر لی ہے کہ بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔مشترکہ دینی نظریات اسلامی  امت مسلمہ میں اتحد اور ایک ملت کا باعث ہوں گے۔بقول علامہ اقبال یہ ہندی وہ خراسانی  یہ افغانی وہ تورانیتو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا





.
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Software and Business Development پاکستان میں سافٹ ویئر کا بزنس ڈویلپمنٹ میں کردار اور اہمیت

$
0
0


In today’s modern age, almost every household has at least one computer system to use, and almost every family member knows how to use it and surf the internet. In fact, even a four year old kid knows how to surf the net or even play several RPG games using their computer.

A computer will not work without installing the computer software required in order to make it work. Since users may have different preferences on what they need and want to be installed on their PC, which would mean that every users will require different computer software to be installed to use it. This simply means that every computer system in each household or establishment may have different kinds of computer software installed on their PCs, depending on what they will need the most. In fact, we can install the computer software that we need on our PC, while removing or uninstalling the others that we don t need, as long as it is not a system software that is required in order for your machine to function.

Of course, besides for personal use, computers and computer software are a business necessity in order for their company to work and function at its best. Consequently, different types of computer software are necessary depending on the nature of business of the company. There are database management computer software, inventory and point of sales computer software, content management systems and many others.

For example, an information management computer software program such as student records system is a must for every school or university in order to keep track and maintain the records of either past or present students. For a department store, a POS or point of sales system is needed in order to keep track of sales and make every transaction as fast and efficient as possible. While a content management system is a great help for online marketers and webmasters to be able to manage bulk content in the most efficient and easiest way.

Aside from what we already mentioned, there are so many other types of computer software that play a vital role in every kind of business. In fact, most of these companies are willing to invest a lot just to have the finest and top quality software to give them the best performance with minimal or zero bugs. Nowadays, almost all businesses depend highly on transactions and processes that are done automatically with the use of high-end computer programs. The softwares effectiveness and efficiency are a must and should be given top priority.


While some businesses choose to hire programmers to create software that is customized to work for their particular business functions, others find it better to buy ready made computer software that is sold by a reputable software distributor. Whichever type you may prefer, always remember to use only quality computer software and buy only the original software. Quality would include efficiency, effectiveness and after sales support provided by the distributor. It would be best if the program is also user friendly to be used with much ease even by first time users. If it is required to function online, it should also have the best security features to save your business from potential hackers.
................................................
  Software engineering is the study and an application of engineering to the design, development, and maintenance of software. The Bureau of Labor Statistics’ definition is “Research, design, develop, and test operating systems-level software, compilers, and network distribution software for medical, industrial, military, communications, aerospace, business, scientific, and general computing applications.”

Typical formal definitions of software engineering are:

“the systematic application of scientific and technological knowledge, methods, and experience to the design, implementation, testing, and documentation of software”;
“the application of a systematic, disciplined, quantifiable approach to the development, operation, and maintenance of software”;
“an engineering discipline that is concerned with all aspects of software production”;
and “the establishment and use of sound engineering principles in order to economically obtain software that is reliable and works efficiently on real machines


Software engineering normally lies under the discipline of computer science. It deals with the making of software and OS for computer systems. In Pakistan this field is also growing very rapidly. In coming future it will also become one of the main branches of engineering like civil and mechanical. With software permeating virtually all aspects of our work in our society, a software Engineering graduate has the option to work in many different sectors such as telecommunications, finance, health care, manufacturing, retailing, security, transport. Other engineering areas like aeronautical, automotive, building, electrical, etc. also have increasing needs for software engineering. The entertainment industry with video games and movie animation also has a large demand for Software Engineers.

As a Software Engineer you will be a qualified professional involved in the technical work of designing, coding, and testing large software products. You will also be responsible for tasks such as directing projects, managing teams, estimating costs and resources, assessing business plans, reviewing proposals and suggesting innovations. The growth of information technology has given rise to many careers and computer software engineering is one of the careers that one can pursue in this field. A computer software engineer deals exclusively with the software part of the computer. Their function is to develop, design and assess software and all the systems that a computer uses to function. The demand for software engineers is high at the moment because of the advancement of IT. To be able to work confidently in this career one needs at least a degree. A keen interest in computers will help you grow in this career.



Scope of Software Engineering in Pakistan:
Pakistan is included amongst one of those countries which have highest demand for software engineers at the moment because of the advancement of IT and its applications. To be able to work confidently in this career. In the passage of time ranging from the last decade Pakistan has created a wide market and growth in the software engineering department including both private and government sectors. According to a US technical magazine, Software Engineering is the fastest growing job in the world and is likely to become the most paid job near 2020. Software Engineering is in high demand in the private sector in Pakistan. Low economy firms employ a high number of software engineers to carry out data handling jobs. New websites in Pakistan has also created new job opportunities for software engineers. The continuous expansion in the IT sector of Pakistan will surely saturate the engineering industry with Software Engineers. Although not at the first priority of many students, software engineering is one of the most promising fields to start your career.

The average salary for a Software Engineer is $10,765 per year. Most people move on to other jobs if they have more than 10 years’ experience in this career.
.......................................................
Business software or a business application is any software or set of computer programs used by business users to perform various business functions. These business applications are used to increase productivity, to measure productivity and to perform other business functions accurately.
By and large, business software is likely to be developed to meet the needs of a specific business, and therefore is not easily transferable to a different business environment, unless its nature and operation is identical. Due to the unique requirements of each business, off-the-shelf software is unlikely to completely address a company's needs. However, where an on-the-shelf solution is necessary, due to time or monetary considerations, some level of customization is likely to be required. Exceptions do exist, depending on the business in question, and thorough research is always required before committing to bespoke or off-the-shelf solutions.
Some business applications are interactive, i.e., they have a graphical user interface or user interface and users can query/modify/input data and view results instantaneously. They can also run reports instantaneously. Some business applications run in batch mode: they are set up to run based on a predetermined event/time and a business user does not need to initiate them or monitor them.
Some business applications are built in-house and some are bought from vendors (off the shelf software products). These business applications are installed on either desktops or big servers. Prior to the introduction of COBOL (a universal compiler) in 1965, businesses developed their own unique machine language. RCA's language consisted of a 12-position instruction. For example, to read a record into memory, the first two digits would be the instruction (action) code. The next four positions of the instruction (an 'A' address) would be the exact leftmost memory location where you want the readable character to be placed. Four positions (a 'B' address) of the instruction would note the very rightmost memory location where you want the last character of the record to be located. A two digit 'B' address also allows a modification of any instruction. Instruction codes and memory designations excluded the use of 8's or 9's. The first RCA business application was implemented in 1962 on a 4k RCA 301. The RCA 301, mid frame 501, and large frame 601 began their marketing in early 1960.
Many kinds of users are found within the business environment, and can be categorized by using a small, medium and large matrix:

Technologies that previously only existed in peer-to-peer software applications, like Kazaa and Napster, are starting to appear within business applications. (Wikipdia)
Links:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

ووٹ کی شرعی حیثیت اور تبدیلی کی خواہش

$
0
0

آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اورجماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ زور و زر اور غنڈا گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کرکے یہ چند روزہ موہوم اعزازا حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے عالم سوز نتائج ہروقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ملک و ملّت کے ہمدرد و سمجھ دار انسان اپنے مقدور بھر اس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں،لیکن عام طور پر اس کو ایک ہارجیت کا کھیل اور خالص دنیاوی دھندا سمجھ کر ووٹ لیے اور دیے جاتے ہیں۔ لکھے پڑھے دین دار مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے کا ہار عذابِ جہنم بنیں گے، یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے۔

اگرچہ آج کل اس اکھاڑے کے پہلوان اور اس میدان کے مرد، عام طور پر وہی لوگ ہیں جو فکرِآخرت اور خدا و رسولؐ کی طاعت و معصیت سے مطلقاً آزاد ہیں اور اس حالت میں اُن کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام پیش کرنا ایک بے معنی و عبث فعل معلوم ہوتا ہے، لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ ہر زمانے اور ہرجگہ کچھ لوگ حق پر قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہرکام میں حلال و حرام کی فکر اور خدا اور رسولؐ کی رضاجوئی پیش نظر رہتی ہے۔ نیز قرآن کریم کا یہ بھی ارشاد ہے: وَذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo(الذّٰریٰت ۵۱:۵۵)، یعنی آپ نصیحت کی بات کہتے رہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے۔اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ انتخابات میں اُمیدواری اور ووٹ کی شرعی حیثیت اور اُن کی اہمیت کو قرآن و سنت کی رُو سے واضح کردیا جائے۔ شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اور کسی وقت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے۔

 ضرور پڑھیں : << غیبت، جھوٹ اور بہتان بازی سنگین گناہ>>


اُمیدواری

کسی مجلس کی ممبری کے انتخابات کے لیے جو اُمیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو وہ گویا پوری ملّت کے سامنے دوچیزوں کا مدعی ہے۔ ایک یہ کہ وہ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے جس کا اُمیدوار ہے، دوسرے یہ کہ وہ دیانت و امانت داری سے اس کام کو انجام دے گا۔ اب اگر واقعی میں وہ اپنے اس دعوے میں سچا ہے، یعنی قابلیت بھی رکھتا ہے اور امانت و دیانت کے ساتھ قوم کی خدمت کے جذبے سے اس میدان میں آیا تو اس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے، اور بہتر طریق اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو بلکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو اس کام کا اہل سمجھ کر نام زد کردے اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں، وہ اگر اُمیدوار ہوکر کھڑا ہو تو قوم کا غدار اور خائن ہے۔ اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملّت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا، پہلے تو وہ خود غدار و خیانت کا مجرم ہوکر عذابِ جہنم کا مستحق بن جائے گا۔ اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اگر اس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے اور یہ سمجھ لے کہ اس ممبری سے پہلے تو اس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال ہی تک محدود تھی کیونکہ بہ نصِ حدیث ہرشخص اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلقِ خدا کا تعلق اس مجلس سے وابستہ ہے، اُن سب کی ذمہ داری کا بوجھ اُس کی گردن پر آتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں اس ذمہ داری کا مسؤل اور جواب دہ ہے۔

ووٹ اور ووٹر

کسی اُمیدوار ممبری کو ووٹ دینے کی ازروے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت شہادت کی ہے کہووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے، اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت اور امانت بھی۔ اور اگر واقعی میں اس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے جو سخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے۔ بخاری کی حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتِ کاذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے (مشکٰوۃ)۔ اور ایک دوسری حدیث میں جھوٹی شہادت کو اکبر کبائر فرمایا ہے (بخاری و مسلم) ۔ جس حلقے میں چند اُمیدوارکھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابلِ ترجیح ہے تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے۔
دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت، یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمایندگی کی سفارش کرتا ہے۔ اس سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہرووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے:
Related image

 مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّءَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا (النساء ۴:۸۵)

یعنی (جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اُس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اور بُری سفارش کرتا ہے تو اُس کی بُرائی میں اُس کا بھی حصہ لگتا ہے)۔

اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کرے جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے، اور بُری سفارش یہ ہے کہ نااہل، نالائق، فاسق و ظالم کی سفارش کر کے اُس کو خلقِ خدا پر مسلط کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا اُمیدوار اپنے پنج سالہ دور میں جو نیک یا بدعمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔

ووٹ کی ایک تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس اُمیدوار کو اپنا نمایندہ اور وکیل بناتا ہے لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اُس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اُس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمایندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے: ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجبِ ثوابِ عظیم ہے اور اُس کے ثمرات اُس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نااہل یا غیرمتدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بُری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن اثرات بھی اُس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔

ضروری تنبیہ

مذکور الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے، اسی طرح ایک اچھے، نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثوابِ عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے۔

 قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرما دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:

قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ (المائدہ ۵:۸)
 اور دوسری جگہ ارشاد ہے:
کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ (النساء ۴:۱۳۵)

ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں، اللہ کے لیے ادایگیِ شہادت کے واسطے کھڑے ہوجائیں۔ تیسری جگہ سورۂ طلاق (۶۵:۱) میں ارشاد ہے: 

وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ،یعنی اللہ کے لیے سچی شہادت کو قائم کرو۔ 

ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے۔ ارشاد ہے:

 وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط (البقرہ ۲:۲۸۳)،

 (یعنی شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو چھپائے گا اُس کا دل گناہ گار ہے)۔

ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کردیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چرائیں، ضرور ادا کریں۔ آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں اُن کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک اور صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدے میں آرہا ہے کہ ووٹ عموماً اُن لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیں اور اُن لوگوں کے ووٹوں سے جو نمایندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے۔ اس لیے جس حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اُسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم و ملّت پر ظلم کے مترادف ہے، اور اگر کسی حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیتِ کار اور خداترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہو تو تقلیلِ شر اور تقلیلِ ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، جیساکہ نجاست کے پورے ازالے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ ظلم کو فقہا رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ واللّٰہ 
سبحانہ وتعالٰی اعلم۔

خلاصہ یہ ہے کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام، اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔

 آپ جس اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے جس کام کے لیے یہ انتخابات ہورہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

۱۔ آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا، وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدامات کرے گا اُن کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔

۲۔ اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب و عذاب بھی محدود۔قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

۳۔ سچی شہادت کا چھپانا ازروے قرآن حرام ہے۔ آپ کے حلقۂ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل و دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

۴۔ جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔

۵۔ ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو، کوئی دانش مندی نہیں ہوسکتی۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے‘‘۔
(محمد شفیع ؒ)

براے مھربانی اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بھیجیں یہ آپ کی اخلاقی قومی اورمذہبی ذمہ داری ہے 
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
کیا آپ پاکستان کے حالات سے پریشان ہیں؟ اپنے پیارے وطن کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں؟ آیے مل کر کچھ کریں 
مزید پڑھیں:
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط: آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں :http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل


----------------------------------
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Over 1,000,000 Visits
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *

حا لات کا جبر اور میرا پنجاب چھوڑنا

$
0
0
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

صوبہ سرحد (خیبر پختوں خواہ ) میں آمد

$
0
0

گوجرانوالہ سے حالات کے جبر کا شکار ہو کر نکلے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بطور ایک’’ مجرم ‘‘رپورٹ کیے تقریباً تین ہفتے ہو چلے تھے۔ میں یہ تمام عرصہ لاہور میں اپنے گھر گوشہ نشین رہا اور مسلسل سوچتا رہا کہ وفاقی حکومت میرے ساتھ کیا سلوک کرے گی ۔جواب ملتا کہ اگر معاملات دفتر کے لگے بندھے معمول کے مطابق چلے (جس کا امکان بہت کم تھا)تو حکومت مجھے صوبہ سندھ، بلوچستان یا سرحد میں سے کسی ایک میں بھیج دے گی۔ نامہرباں ہوئی تو ایف آئی اے، اِنٹیلجنس بیورو یا پولیس اکیڈمی بھیج دے گی۔ زیادہ نامہربان ہوئی تو مجھے کسی وفاقی دفتر میں سیکشن افسر لگادے گی۔ اگر غصے میں ہوئی تو اوایس ڈی بناکر بٹھا چھوڑے گی۔ اگرزیادہ غصے میں ہوئی تو غیر معینہ مدت کے لئے بغیر کسی پوسٹنگ کے یونہی معلق رکھے گی(جیسا کہ میں اُس وقت تھا) اور پھر بھول جائیگی، اور اس دوران میں تنخواہ سے بھی محروم رہوں گاکیونکہ اس کے لئے کسی نہ کسی پوسٹ پر تعینات ہونا ضروری ہوتا ہے، خواہ وہ اوایس ڈی کی ہی ہو۔اور اگر بہت ہی زیادہ غصے میں ہوئی تو انضباطی کارروائی کا آغاز بھی کرسکتی ہے۔ میں اس موضوع پر جتنا سوچتا اُتنا ہی اُلجھتا چلاجاتا۔ اور پھر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ گھر بیٹھے رہنے سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا ۔مجھے باہر نکلنااور اپنا راستہ بناناہوگا۔ 

مجھے اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوچکاتھا کہ ہمارے سارے ملازمتی معاملات وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ راؤ عبدالرشید خاں کے ہاتھ میں ہیں اور ان تک پہنچے بغیر بات نہیں بنے گی۔ میں نے اُن سے براہ راست ملنے کا فیصلہ کرلیا ۔میرے یہ فیصلہ کرنے میں ہمارے ایک سینئر پولیس افسر جناب خالد لطیف کی ایک موقع پر ہم جونیئر افسران کو کی گئی ایک نصیحت کو بہت دخل تھا ۔ آپ نے کہا تھا کہ ’’یادرکھیں ! افسر اپنی سفارش خود ہوتاہے۔ جب کبھی کوئی ایساموقع پیش آئے ، متعلقہ بندے سے خود بات کریں۔ ادھر اُدھر سے مت کہلوائیں۔‘‘ راؤ عبدالرشید خاں صاحب سے میرا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعارف نہ تھا ۔ میں نے کبھی اُن کو دیکھا تک نہ تھا۔ 1978میں جب ہم پولیس کالج سہالہ میں پولیس کی ابتدائی تربیت حاصل کررہے تھے وہ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹوکے خصوصی ساتھی اور معاون ہونے کے’’ الزام‘‘ میں جبری ریٹائرکئے جاچکے تھے۔ میرا ان سے کُل تعارف مشہور صحافی منیر احمد منیر کو دیئے گئے ان کے ایک طویل انٹرویو پر مبنی کتاب ’’جومیں نے دیکھا‘‘ کے توسط سے تھا ۔ میں نے پیپلز پارٹی کے ایک پرانے رہنماکے ذریعے راؤ صاحب سے ملاقات کا وقت لیا اور وقت مقررہ پر اسلام آباد اُن کے دفتر جاپہنچا ۔

راؤ عبدالرشید خاں صاحب بہت دبنگ، اکھڑ ، سخت گیر اور بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لانے کی شہرت رکھتے تھے ۔ جس کی چند جھلکیاں میں گوجرانوالہ میں دیکھ چکا تھا۔ خلاف توقع بڑی شفقت اور ملائمت سے ملے ۔میں نے حوصلہ پاکر انہیں گوجرانوالہ کی ساری صورتحال تفصیل سے بتائی اور کہا کہ آپ لوگوں کو یہاں مرکز میں صورت حال کی بہت غلط رپورٹنگ ہوتی رہی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ضمنی انتخابات کے دوران اول تو کسی قسم کی کوئی دھاندلی ہوئی ہی نہیں ، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہوئی تھی تو بتائیں کیا اس میں کسی بھی اعتبار سے پولیس ملوث تھی؟ کیا الیکشن والے دن دھاندلی کی کوئی ایک بھی شکایت کسی بھی فریق کی طرف سے کی گئی؟ کوئی ایک بھی جعلی ووٹر یا ووٹ پکڑ ا گیا؟پوری انتخابی مہم کے دوران کسی بھی جگہ پولیس نے پیپلز پارٹی کے خلاف یا مسلم لیگ کے حق میں کوئی کام کیا؟ میں نے شناختی کارڈ والے واقعہ کی بھی تفصیل اور اس ضمن میں پولیس کی مثبت کارروائی کاذکرکیا ۔ میں نہ جانے کیاکچھ بولتاچلاگیا اور وہ سنتے چلے گئی۔ آخر میں میں نے بالکل کھلے الفاظ میں شکایتاً یہ بھی کہہ دیا کہ وفاقی حکومت نے ہم دونوں (مجھے اور میرے ڈی آئی جی ) کو انتہائی نیک نیتی اور غیرجانبداری سے کام کرنے کے باوجود جانبداری کا الزام لگاکر بطور ملزم واپس بلاکر ہمارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ راؤ صاحب خاموشی اور انہماک کے ساتھ سب کچھ سنتے اور اگلی نسل کے ایک نوجوان پی ایس پی افسر کو اپنے بے کراں تجربہ کی روشنی میں کھنگالتے، ٹٹولتے اور تولتے رہے ۔اور پھرشاید اُنہیں اگلی نسل کے اس جونیئر افسر کی صاف گوئی ، سچائی اور بے باکی بھاگئی۔ جب میں چُپ ہوا تو قدرے مسکرا کر نہایت متانت اور نرمی سے بولے ’’تو پھر اب کیاہوسکتاہے؟میں آپ کو اب پنجاب تو واپس نہیں بھیج سکتا۔‘‘ میں نے کہا ’’سر!میں بھی سمجھتاہو ں کہ اب یہ ممکن نہیں۔ اگر آپ بھیج بھی دیں تو اب پنجاب والے ہمیں قبول نہیں کریں گے۔ میری اب آپ سے صرف اتنی درخواست ہے کہ میں چونکہ لاہور کا رہنے والا ہوں ، مجھے کہیں دُور دراز بھیجنے کی بجائے کہیں قریب ہی تعینات کر دیں ۔ اس لحاظ سے صوبہ سرحدہی قریب ترین ہے۔ 
‘‘ انہوں نے اثبات میں سرہلادیا اور میں سلام اور شکریہ اداکرکے باہر نکل آیا۔ اُسی روز میری خدمات حکومتِ سرحد کے سپرد کردی گئیں۔ میں نے صوبہ سرحد میں کبھی نوکری نہیں کی تھی اور نہ وہاں کسی کو جانتاتھا۔ مجھے صرف یہ علم تھا کہ وہاں کے آئی جی محمد عباس خان ہیں(جو بعد میں آئی جی پنجاب بھی رہے۔ پولیس سروس آ ف پاکستان کا ایک بہت بڑا نام۔) اوراُن کی شہرت بہت اچھی ہے، اور بس۔ میرا اُن سے کوئی تعارف یا ملاقات نہیں تھی ۔ خود اُنہوں نے تو شاید کبھی میرا نام بھی نہ سُنا ہوگا ۔نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے ایک دوروز بعد میں ایک شام پشاور پہنچا ۔ فرنٹیئ کانسٹیبلری کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا ۔ اگلی صبح لوگوں سے پوچھتا پوچھاتا چیف سیکرٹری کے دفتر پہنچا ۔ چیف سیکرٹری جناب عمر آفریدی دفتر میں موجود نہ تھے ۔ میں نے ڈپٹی سیکرٹری سروسز کے پاس اپنی حاضر ی کی رپورٹ کی ، اپنا لاہور کا ایڈریس اور رابطہ نمبر دیا اور درخواست کی کہ پوسٹنگ کی کوئی تجویز بنے یا پوسٹنگ آرڈر نکلے تو براہ کرم اطلاع کردیں ۔ وہاں سے آئی جی آفس آیا ۔ آئی جی صاحب موجود تھے۔ سرسری سی ملاقات ہوئی۔ میں نے اُنہیں مختصراًبتایاکہ میں پنجاب سے ٹرانسفر ہوکر آیاہوں۔چیف سیکرٹری آفس میں حاضری کردی ہے ۔ کسی مناسب جگہ پر تعیناتی کرادیجئے۔ آئی جی صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے وہیں سے گاڑی کا رُخ موڑا اور رات تک لاہور لوٹ آیا۔ پشاور رپورٹ کئے جب ایک ماہ گذر گیا اور وہاں سے کوئی خیر خبر نہ آئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایک بار پھر پشاور جاناچاہیے اور آئی جی صاحب سے دوبارہ درخواست کرنی چاہیے کہ وہ مجھے کسی مناسب جگہ تعینات کردیں۔ چنانچہ یونیورسٹی ٹاؤن میں زرعی یونیورسٹی کا ریسٹ ہاؤس بُک کروایا، فیملی کو ساتھ لیا اور پشاور کی راہ لی۔ ارادہ یہ تھا کہ آٹھ دس دن رہیں گے۔ پہلے آئی جی صاحب سے ملاقات ہوگی اور اس کے بعد پشاور اور آس پاس کو خوب اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھیں گے اور اگر اِس دوران پوسٹنگ ہوگئی تو اس کے مطابق نیا لائحہ عمل تیار کریں گے، ورنہ واپس لوٹ آئیں گے۔ شام پشاور پہنچ کر اگلی صبح امید وبیم کی کیفیت میں آئی جی صاحب سے ملنے روانہ ہوا۔ میں صوبہ میں نووارد تھا، نہ کوئی کام اور ماحول کاتجربہ اور نہ کسی سے کوئی تعلق وتعارف ۔ اس لئے میری زیادہ سے زیادہ توقع یہ تھی کہ جب کبھی مجھے لگانا ہوا توکسی دفتری پوسٹ پر لگادیاجائے گا۔بہرحال دفتر پہنچا ۔آئی جی صاحب تشریف رکھتے تھے۔ اطلاع کروائی ۔ 
آئی جی صاحب نے فوراً بلالیا ۔ وہ اکیلے تھے۔ میں سلام کرکے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ فائلیں دیکھنے اور ڈاک نکالنے میں مصروف تھے ۔ میں کافی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ انہوں نے میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھااور نہ کوئی بات کی۔ میں اس سردمہری سے مایوس ہوکر اُٹھ کھڑا ہوا اور اجازت چاہی ۔ آئی جی صاحب نے اشارے سے بیٹھنے کیلئے کہااور خود بدستور ڈاک نکالنے میں مصروف رہے۔ مزید کچھ دیر میں انہوں نے اپنا کام مکمل کیا ، آخری فولڈر بند کیا اور میری طرف متوجہ ہوئے ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد حرفِ مدعازبان پرلانے کیلئے میں ابھی مناسب الفاظ ہی سوچ رہاتھا کہ خود ہی بولے ’’میں آپ کو ایس ایس پی ایبٹ آباد لگارہاہوں‘‘ اور پھر ساتھ ہی مجھے ایبٹ آباد کے بارے میں ضروری معلومات اور ہدایات دینا شروع کردیں۔ حیرت سے میری زبان گُنگ ہوگئی۔ ایس ایس پی ایبٹ آباد صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک اہم اور پرائز پوسٹ سمجھی جاتی ہے جہاں کسی تجربہ کار اور علاقائی سیاست کی اونچ نیچ او ر اہل علاقہ کو سمجھنے والے، یا اہلِ اقتدار کے کسی قریبی عزیز ،یاپھر کسی چہیتے افسر کو لگایاجاتاہے۔عالمِ حیرت میں اضطراری طور پر میرے منہ سے نکلاکہ’’سر! آرڈر ہوگئے ہیں‘‘ کہنے لگے’’نہیں! ابھی ہوجاتے ہیں۔میں چیف سیکرٹر ی کو کہتاہوں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے انٹر کام اُٹھا یا اور چیف سیکرٹری کو میرا نام بتاکر کہا کہ اس کے ایس ایس پی ایبٹ آباد کے آرڈر کردیں۔ حیرت پر حیرت، کیا یوں بھی ہوتاہے! میں آئی جی صاحب کا ٹھیک طرح سے شکریہ بھی ادانہ کرسکا اور بھیگی آنکھوں سے سلام کرکے باہر نکل آیا۔کچھ دیر تک اپنے حواس بحال کئے اورپھر ڈپٹی سیکرٹری سروسز کے پاس پہنچا۔ وہاں اطلاع پہنچ چکی تھی اور پھر ایک آدھ گھنٹے میں میرے بیٹھے بیٹھے محکمہ سروسز سے میرے ایس ایس پی ایبٹ آباد کے آرڈر جاری ہو گئے۔ اگلے روز میں نے ایس ایس پی ایبٹ آباد جناب فیاض احمد طو روکو جو مجھ سے ایک بیچ سینئر تھے فون کیا اور پوچھا کہ میں کب آؤں۔ انہوں نے کہا وہ آئی جی صاحب سے بات کرکے جواب دیں گے ۔(آج جناب فیاض احمد طورو کا شمار پولیس سروس آف پاکستان کے چند بہترین اور نیک نام افسروں میں ہوتاہے)شام تک مجھے آئی جی آفس سے مطلع کیاگیا کہ چونکہ ان دنوں ایبٹ آبادمیں سرحد اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہورہاہے ،ساری صوبائی اسمبلی ،گورنر ،وزیراعلیٰ اور پوری صوبائی کابینہ وہیں موجود ہے۔سکیورٹی اورپروٹوکول کے علاوہ اِن لوگوں سے ذاتی جان پہچان اورواقفیت بھی بہت ضروری ہے ، لہذا فیصلہ کیاگیا ہے کہ موجود ہ ایس ایس پی اسمبلی کے موجود ہ سیشن کے اختتام تک بدستور اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔ آپ جولائی کے پہلے ہفتے میں آ پس میں طے کرکے چارج لیں۔ میں نے کہا کہ بہت اچھا! میں نے اس وقت کو غنیمت جانااور اپنے مجوزہ پروگرام کے مطابق پہلے پشاور کو اچھی طرح گھوم پھرکر دیکھااور پھر سوات، بحرین اور کالام کا رُخ کیا۔ پچھلے چند ماہ کی موسم اورحالات وو اقعات کی حدت اورتپش نے میرے جسم اور رُوح دونوں کو جُھلسا کر رکھ دیا تھا۔اِن حالات میں یہ سیروتفریح میری اور میری فیملی کیلئے قدرت کی طرف سے جھونکاء جانفزاء اور جنت نظیر وادیوں پر مشتمل پاکستان کے سب سے خوبصورت صوبے کی طرف سے ایک خیرمقدمی تحفہ تھا۔ہفتہ بھر کی بھرپور سیروسیاحت کے بعدہم تازہ دم ہوکر لاہور لوٹ آئے۔ بالآخر 4جولائی 1989کو میں لاہور سے سیدھا ایبٹ آباد پہنچا۔ اگلی صبح جناب فیاض احمد طورو نے اپنے دفتر میں میرا استقبال کیااور انتہائی پُروقار انداز میں ایس ایس پی ایبٹ آباد کا چارج میرے حوالے کرکے خود ایس ایس پی پشاور کا چارج سنبھالنے کیلئے پشاور روانہ ہوگئے


http://dailypakistan.com.pk/E-Paper/Lahore/2017-06-20/page-16/detail-6


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

ایبٹ آباد میں ورود

$
0
0


5جولائی 1989ء کو مَیں نے ایس ایس پی ایبٹ آباد کا چارج سنبھالا۔صوبہ خیبرپختونخوا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہزارہ، اور ہزارہ کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک وادی، ایبٹ آباد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے براستہ ریحانہ (صدر ایوب خان کا آبائی گاؤں) 110 کلومیٹر، براستہ حسن ابدال 143 کلو میٹر، صوبائی دارالحکومت پشاور سے 155 کلومیٹر اور جی ٹی روڈ پر واقع حسن ابدال کیڈٹ کالج سے تقریباً 70کلومیٹر کے فاصلے پر شاہراہِ قراقرم(KKH) جسے شاہراہِ ریشم (Silk Route)بھی کہتے ہیں پر واقع ہے۔ شاہراہِ قراقرم اب چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا حصہ بن گئی ہے۔ یہی وہ شہر ہے، جہاں سے کچھ سال قبل اسامہ بن لادن پکڑا اور ماراگیا۔ پہلے صرف برصغیر پاک و ہند کے عوام اور سیر وسیاحت کے شوقین غیر ملکی باشندے ہی اس شہر کو اپنی خوبصورتی اور پُرفضا سیاحتی مقام ہونے کے ناطے سے جانتے تھے، لیکن اسامہ بن لادن والے واقعہ کے بعد تو اب ساری دنیا اس شہر کے نام اور محلِ وقوع سے واقف ہوگئی ہے۔ 

1849ء میں خطہ ہزارہ کے سکھوں کے قبضے سے نکل کر انگریزوں کے قبضے میں آنے کے بعد کیپٹن جیمز ایبٹ اس خطے کا پہلا نگرانِ اعلیٰ اور ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا۔ اُس وقت ہری پور اس خطے کا صدر مقام ہواکرتا تھا ۔ جیمز ایبٹ نے سب سے پہلے موجودہ ایبٹ آباد کے مقام پر ایک فوجی چھاؤنی بنائی اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک شہر کی بنیاد رکھی۔ جیمز ایبٹ کے بعد آنے والے ڈپٹی کمشنر نے 1853ء میں اس نئے شہر کے خدوخال نکل آنے پر اسے (تب)میجر جیمز ایبٹ کے نام سے موسوم کرکے اِسے ضلع ہزارہ کا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔ یہ شہر چارو ں طرف سے سربن اورشملہ کی خوبصورت پہاڑیوں کے درمیان ایک پیالہ نما قطعہ زمین پرواقع ہے۔کہتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں یہ پیالہ ایک جھیل تھی جو رفتہ رفتہ خشک ہوکر ایک خوبصورت واد ی میں تبدیل ہوگئی۔ سواسوسال تک پورا خطہ ہزارہ ایک ضلع اور پشاور ڈویژن کا حصہ رہا۔

 1976ء میں ضلع ہزارہ کو ڈویژن کا درجہ دے کر اسے تین اضلاع ایبٹ آباد، مانسہرہ اور کوہستان میں تقسیم کردیاگیا۔ ایبٹ آباد کاشہر ہزارہ ڈویژن اور ضلع ایبٹ آباد دونوں کا ہیڈکوارٹرز قرار پایا۔1991ء میں ایبٹ آباد کی تحصیل ہری پور کو ضلع کا درجہ دے دیاگیا۔اسی طرح 1993ء میں تحصیل بٹگرام کو ضلع مانسہرہ سے الگ کرکے ضلع بنادیاگیا۔ 2012ء میں ضلع مانسہرہ ہی سے کالا ڈھاکہ اور اس کے گردونواح کے علاقے کو کاٹ کر طورغر کے نام سے ایک مزید ضلع بنادیاگیا۔ 2017ء میں ضلع کوہستان کو بھی لوئر کوہستان اور اَپر کوہستان کے نام سے دواضلاع میں تقسیم کردیاگیا۔ یوں یہ خطہ ہزارہ جو 1976ء تک ایک ضلع تھا ،آج سات اضلاع پر مشتمل ایک ڈویژن ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہزارہ نا م کا کوئی ضلع اس ہزارہ ڈویژن میں وجود نہیں رکھتا۔ میرے وقت تک ہری پور ضلع ایبٹ آباد کا ہی حصہ تھا۔ میرے بعد یہ الگ ضلع بنا۔ یوں میں متحدہ ایبٹ آباد کا آخری ایس ایس پی تھا۔ ایبٹ آباد شہر کو گھوم پھر کر دیکھیں تو یہ فوجی اور تعلیمی اداروں کا ایک بہت بڑا کیمپس دکھائی دیتاہے۔

اس شہر کی آب وہوا اس قدر عمدہ ہے کہ انگریز کے وقت سے ہی اِسے رہائشی (boarding) تربیتی اور تعلیمی اداروں کے لئے موزوں ترین سمجھاجاتاہے۔ ایبٹ شہر میں واقع پاکستان ملٹری اکیڈمی،بلوچ رجمنٹ، فرنٹیئر فورس رجمنٹ اور آرمی میڈیکل کور کی مرکزی تربیت گاہیں اورنتھیا گلی کے قریب کالا باغ کے مقام پر ائیر فورس کی تربیت گاہ میری تعیناتی سے بہت پہلے سے یہاں قائم تھیں۔ تعلیمی اداروں میں پاکستان بھرمیں اپنی منفرد شناخت رکھنے والے ادارے آرمی برن ہال سکول اور ایبٹ آباد پبلک سکول بھی مجھ سے پہلے موجود تھے۔ ایوب میڈیکل کالج میرے سامنے تعمیر اور فعال ہوا، جبکہ فرنٹیئر میڈیکل کالج، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کامسٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول اینڈ کالج میرے بعد قائم ہوئے۔ ان کے علاوہ درجنوں دیگر سرکاری اوراعلیٰ معیارکی پرائیویٹ درسگاہیں ایبٹ آباد میں علم کی روشنی پھیلارہی ہیں۔ اِن تعلیمی اداروں کی بدولت ایبٹ آبادکی شرح خواندگی ملک بھر میں سب سے زیادہ (87فیصد)ہے۔ نتھیاگلی، ڈونگا گلی، چھانگلہ گلی، خیرہ گلی،ایوبیہ، ٹھنڈیانی اور میراں جانی ضلع ایبٹ آباد کی خوبصورت پہاڑی چوٹیاں اور سیرگاہیں ہیں۔ خانپور ڈیم، تربیلا ڈیم اور حطار انڈسٹریل اسٹیٹ بھی میرے وقت تک ضلع ایبٹ آباد کا حصہ تھی۔

مجھ سے پہلے پولیس سروس آ ف پاکستان کے بڑے بڑے نامور سپوت ضلع ہزارہ یا ایبٹ آباد کے ایس ایس پی رہے۔ اِن میں سے بہت سے بعد ازاں کسی نہ کسی صوبے کے آئی جی تعینات ہوئے۔بعض دودواور تین تین صوبوں کے بھی آئی جی رہے۔ جب میں نے ضلع ایبٹ آباد کا چارج سنبھالا اُس وقت جناب بریگیڈئیر (ر) امیر گلستان جنجوعہ صوبہ سرحد کے گورنر، جناب آفتاب احمد خان شیرپاؤ اس کے وزیر اعلیٰ، جناب عمر آفریدی اس کے چیف سیکرٹری اور جناب محمد عباس خان اس کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔ جناب عبدالحمید خان ہزارہ ڈویژن کے کمشنر، جناب میجر (ر) فقیر ضیاء معصوم اس کے ڈی آئی جی (بعد میں آئی جی بلوچستان )اور جناب عطاء اللہ خان ضلع ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر (بعد میں وفاقی سیکرٹری)تھے۔ ایک رینکر افسر عبدالحمید خان ایبٹ آباد کے ایس پی ہیڈکوارٹرز اور موجودہ کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری لیاقت علی خان اے ایس پی سٹی ایبٹ آباد تھے جو چند ماہ بعدمیرے دور میں ہی ترقی یاب ہوکریہیں ایس پی ہیڈکوارٹرز تعینات ہوگئے۔ائیر مارشل اصغر خان، گوہرایوب خان(بعد میں سپیکر قومی اسمبلی اور وزیرِخارجہ) ،سردار مہتاب احمد خان عباسی(بعد میں وزیراعلیٰ سرحد اور گورنر خیبرپختونخوا)، جاوید الرحمن عباسی (موجودہ ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کے والد)،امان اللہ جدون، بابا حیدرزمان(تب چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل ایبٹ آباد)،راجہ سکندر زمان (بعد میں نگران وزیرِاعلیٰ)، یوسف ایوب (تب صوبائی وزیر)، پیر صابر شاہ(بعد میں وزیراعلیٰ سرحد)،محمد ایوب تنولی(تب صوبائی وزیر)اور حبیب الرحمن تنولی وغیرہم اُن دنوں ضلع ایبٹ آباد کے سرکردہ سیاستدان تھے۔ ایبٹ آباد کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے نہایت توجہ اور دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض کی بجاآوری شروع کر دی، تاہم میرے دماغ میں ایک اُلجھن موجود تھی کہ میری طرف سے کسی توقع ، کوشش یاسفارش کے بغیر اور حکومت کی طرف سے کوئی اشارہ دیئے ، مشورہ کئے یا رضامندی جانے بغیر مجھ جیسے نووارداور اجنبی کی صوبے کی اس اہم پوسٹ پر تعیناتی کیسے اور کس بنیاد پر کی گئی ؟ تاہم کچھ دنوں بعد ایک باوثوق ذریعے سے ملنے والی معلومات سے یہ عُقدہ کسی حد تک حل ہوگیا۔ ہوا درحقیقت یوں تھاکہ جن دنوں میں نے صوبہ سرحد میں حاضری کررکھی تھی، لیکن ابھی میری کسی جگہ پوسٹنگ نہیں ہوئی تھی، ایبٹ آباد میں ایک بہت اہم واقعہ ہوگیا۔ ہزارہ ڈویژن کے ڈی آئی جی جناب مظہر شیرخان بہت یارباش قسم کے آدمی تھے۔ ہری پور کی ترین فیملی کے کچھ لوگوں سے ان کی دوستیاں تھیں ۔ یہ بے تکلف دوست تقریباً ہر روز شام کو ڈی آئی جی ہاؤس میں محفل جماتے ، تاش شطرنج کھیلتے، کھاتے پیتے اور خوش گپیاں کرتے۔

ایک دن نہ جانے کیاہوا کہ ڈی آئی جی مظہر شیر خان او ر اشر ف ترین اور امان اللہ ترین (تب سپیکر سرحد اسمبلی) کے درمیان کسی بات پر تلخی ہوگئی۔ اشرف ترین نے غصے میں ریوالور نکالا اور ڈی آئی جی صاحب کو وہیں اُن کے اپنے گھر میں قتل کردیا اور بھاگ نکلا۔ اس اندوہناک واقعہ پر صوبے بھر میں ایک کہرام مچ گیا، لیکن اس سے زیادہ بُرا یہ ہوا کہ یہ قتل ایبٹ آباد میں پختون بمقابلہ ہزارہ وال مخاصمت کا رنگ اختیار کرگیا ۔لسانی اور علاقائی عصبیتیں جاگ اُٹھیں۔ دونوں اقوام خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابل آکھڑی ہوئیں۔ یہاں تک کہ (جیساکہ مجھے بتایاگیا) ہزارہ سے تعلق رکھنے والے عوام وخواص پرکیا موقوف ، پولیس کے ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی اکثر یت نے مقتول ڈی آئی جی کاجنازہ نہ پڑھا۔ قتل کے اس افسوس ناک واقعہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے لسانی اور علاقائی تعصب ،اوراس کے عملی مظاہرے نے صوبائی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا۔ صوبائی حکومت ایبٹ آباد کی انتظامیہ سے سخت نالاں ہوئی ۔ اندریں حالات فیصلہ کیا گیا کہ ایبٹ آباد کی پوری انتظامیہ کو تبدیل کردیاجائے۔ مقتول ڈی آئی جی کی جگہ فوری طور پر جناب میجر (ر) فقیر ضیاء معصوم کو نیا ڈی آئی جی، جبکہ جناب عبدالحمید خان اور جناب عطاء اللہ خان طورو کو بالترتیب نیا کمشنر ہزارہ ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد تعینات کردیاگیا۔ اسسٹنٹ کمشنر اور سب ڈویژنل پولیس افسرایبٹ آباد بھی تبدیل کردیئے گئے۔ ایس ایس پی کو بھی بدلنے کا فیصلہ ہوچکاتھا ،لیکن چونکہ امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول کرنا تھا، خصوصاً اِس قتل کیس کی تفتیش ،ملزمان کی گرفتاری اور مقدمے کو چالان عدالت کرنے جیسے بہت سے اہم مراحل ابھی طے ہوناباقی تھے ،نیز کچھ دنوں کے بعد پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت صوبائی اسمبلی کے بجٹ سیشن کوپہلی بارایبٹ آباد میں منعقد ہونا تھااورصوبائی حکومت اِسے منسوخ کرکے کسی قسم کی کمزوری کا کوئی تاثر نہیں دینا چاہتی تھی، چنانچہ ایک تجربہ کار ،تمام حالات وواقعات اور لوگوں سے بخوبی واقف اوراعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ایس ایس پی جناب فیاض طورو کو ان امور کی تکمیل تک روک لیا گیا۔ اس دوران نئے ایس ایس پی کا تقرر زیرِ غور رہا۔ صوبے کے بڑوں نے دیگر ناموں کے ساتھ ساتھ میرے نام پر بھی غور کیا۔ اُن معروضی حالات میں انہیں کو ئی غیر متنازعہ ،غیر جانبدار، ترجیحاً صوبہ غیر کا اور مناسب سینیارٹی کا کوئی افسر درکارتھا۔ میں نہ پختون تھا ،نہ ہزارہ وال۔ میں نے صوبہ سرحد میں اس سے پہلے کہیں کام نہیں کیا تھا۔ میرا صوبے کی کسی علاقائی، لسانی، مذہبی یاسیاسی شخصیت، گروہ، گروپ یا پارٹی سے کوئی تعلق یا تعارف نہیں تھا۔ میری سنیارٹی بھی مطلوبہ معیار کے مطابق تھی اور میری آخری پوسٹنگ بھی ایبٹ آباد سے ہر اعتبار سے کہیں زیادہ مشکل ضلع گوجرانوالہ کے ایس ایس پی کی تھی، لہٰذا بڑوں نے اس موقع پر مجھے ا س پوسٹ کے لئے موزوں سمجھا اور فیصلہ ہوا کہ متذکرہ بالا ضروری امور کی تکمیل کے بعد مجھے ایس ایس پی ایبٹ آباد لگادیاجائے، لیکن میں ان تمام حالات اورسوچ سے بے خبر اپنی پوسٹنگ کے لئے یاددہانی اور درخواست کرنے کی غرض سے وقت سے ذرا پہلے ہی آئی جی صاحب کے سامنے جاپیش ہوا ۔ انہوں نے مجھے ٹالنے یا مزید انتظار کرنے کا کہنے کی بجائے کمال مہربانی کرتے ہوئے اسی دن میری ایبٹ آباد تقرری کا پروانہ جاری کروا دیا، تاہم پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق چارج بیس روز بعد بجٹ سیشن کے اختتام پر میرے حوالے کیا گیا۔ یہ سب ایک اندرونی انتظامی حکمت عملی تھی جس کا وزیراعلیٰ ،آئی جی اور چیف سیکرٹری کے سوا شاید کسی اور کو علم نہ تھا۔ بہرحال جو بھی ہوا اور جس طرح بھی ہوا،اب مجھے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرناتھا۔


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

JIT on Panama Papers پانامہ پیپرز- جے ایئی ٹی رپورٹ اور نواز شریف فیملی کرپشن کیس

$
0
0

Image result for Panama JITImage result for Panama JIT

روک سکتے ہو تو روک لو پاکستان میں کرپشن کو
روک سکتے ہو تو روک لو پاکستان میں منی لانڈرنگ کو
روک سکتے ہو تو روک لو پاکستان میں ٹیکس چوروں کو
روک سکتے ہو تو روک لو پاکستان میں ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو
روک سکتے ہو تو روک لو پاکستان میں رشوت خوروں کو
روک سکتے ہو تو روک لو پاکستان میں پانامہ لیک کو
روک سکتے ہو تو روک لو پاکستان میں مودی کے یاروں کو
Read latest updates on <<<<Panama Leaks Case >>>>>

روک سکو تو روک لو نوازشریف کو 

‎اسلام آباد، جے آئی ٹی کی رپورٹ 254  صفحات پر مشتمل ہے
ابتدائیہ
�جے آئی ٹی کا سربراہ نامزد ہونا میرے لئے باعث عزت اور فخر کی بات ہے، واجد ضیاء
عتماد کرنے اور جے آئی ٹی کاسربراہ بنانے پر سپریم کورٹ کا مشکور ہوں، واجد ضیاء
محسوس کرتا ہوں کہ ہم سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے اور رپورٹ جمع کرارہے ہیں،واجد ضیاء
جے آئی ٹی کے ممبران کی غیر معمولی صلاحیتیوں کے بغیر ہدف کا حصول ممکن نہیں تھا، واجد ضیاء
جے آئی ٹی کے ممبران نے انتہائی عزم اور غیر جانبداری سے اپنا کام مکمل کیا، واجد ضیاء
بطور سربراہ تفتیش کے تمام پہلوئوں کی ذمہ داری میں اپنے سر لیتا ہوں، واجد ضیاء
ساتھ دینے پر جے آئی ٹی ممبران اور تمام اسٹاف کا مشکور ہوں، سربراہ جے آئی ٹی
جے آئی ٹی اراکین کو ملنے والی دھمکیاں سپریم کورٹ کے علم میں ہیں،واجد ضیاء
ہوسکتا ہے جے آئی ٹی اراکین کو مستقبل میں بھی دھمکیاں ملیں اور نشانہ بنایا جائے، واجد ضیاء
جے آئی ٹی رپورٹ / گلف اسٹیل ملز (صفحہ ایک تا 51) (عامر عباسی)
سپریم کورٹ نے گلف سٹیل ملز سے متعلق پانچ سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا، جے آئی ٹی
گلف سٹیل ملز کی تفتیش کےلیے طارق شفیع، نواز شریف، حسین و حسن نواز کا بیان لیا،رپورٹ
حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق کےلیے متحدہ عرب امارات بھیجیں، رپورٹ
باہمی قانونی معاونت کے تحت متحدہ عرب امارات حکومت سے تصدیق کرائی، رپورٹ
طارق شفیع، نواز شریف، مریم نواز، حسن اور حسین نواز گلف سٹیل کے شواہد نہیں دے سکے،رپورٹ
شریف خاندان کا شواہد جمع نہ کرانا نیب اور قانون شہادت آرڈیننس کے تحت جرم ہے، رپورٹ
طارق شفیع کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی وکیل کے تیار کردہ تھے ،رپورٹ
طارق شفیع نے نہ تو بیان خلفی پڑھے نہ ہی وہ اس کے متن سے اگاہ تھے،رپورٹ
طارق شفیع کی جمع کرائی گئی تمام دستاویزات جھوٹی اور حقائق کے منافی تھیں،رپورٹ
اسلام آباد؛ طارق شفیع کے بیان حلفی اور زبانی بیان میں تضاد تھا، رپورٹ
بیان حلفی کے مطابق گلف سٹیل ملز میں میاں شریف اور محمد حسین پاٹنرز تھے،رپورٹ
اسلام آباد؛ زبانی بیان میں طارق شفیع نے کہا میاں شریف اکیلے مالک تھے،رپورٹ
گلف سٹیل ملز کے 25 فیصدشئیر فروخت کرنے کا دعویٰ جھوٹ اور جعلی تھا، رپورٹ
دبئی سے جدہ سکریپ مشینری کا دعویٰ بھی مشکوک ہے ، جے آئی ٹی رپورٹ
متحدہ عرب امارات نے شریف خاندان کے 25 فیصد شیئر فروخت کرنے کی تصدیق نہیں کی،رپورٹ
اپارٹمنٹس خریدنے اور کاروبار کی تمام دستاویزات جعلی ثابت ہوئیں، جے آئی ٹی رپورٹ
شریف خاندان منی ٹریل ثابت کرنے کیلئے ایک بھی دستاویز پیش نہیں کر سکا،رپورٹ
من گھڑت کہانی ثابت کرنے کے لئے دستاویزات کے بجائے گواہوں کے بیانات ہی کافی ہیں،رپورٹ
طارق شفیع اور حسین نواز کے بیانات میں تضاد ہی ساری کہانی بیان کر دیتا ہے،رپورٹ
طارق شفیع کے مطابق 1978سے 1980تک گلف سٹیل کے معاملات شہباز شریف دیکھت تھے،رپورٹ
شہباز شریف کے مطابق انہوں نے گلف سٹیل کے معاملات میں کردار ادا نہیں کیا، رپورٹ
گلف سٹیل کے فروخت کی دستاویزات پر طارق شفیع کے علاوہ کوئی اور دستخط کررہا تھا،رپورٹ
دبئی حکام نے 25 فیصد شئیر 12 ملین درہم کے فروخت ہونے کی تصدیق بھی نہیں کی،رپورٹ
۔12ملین درہم وصول کرنے اور الثانی خاندان کو دینے کی کوئی بھی دستاویز نہیں دی گئی،رپورٹ
گلف سٹیل کی فروخت ،قطری خط ، طارق شفیع کا بیان ایک دوسرے سے متصادم ہیں،رپورٹ
اسلام آباد؛ فہد بن جاسم کو کاروبار کے لئے12 ملین درہم دینا فسانہ ہے حقیقت نہیں، رپورٹ
شریف خاندان نے گلف سٹیل کی فروخت کے وقت 14ملین درہم دینے تھے، رپورٹ
شریف خاندان گلف اسٹیل سے 12 ملین کی سرمایہ کاریی کیسےکر لی؟ رپورٹ
گواہوں کے بیانات کے مطابق طارق شفیع نے 12ملین درہم وصول کئے نہ ہی فہد جاسم کو دیئے،رپورٹ
گلف سٹیل ملز کی فروخت اور فہد بن جاسم کے ساتھ کاروبار کا دعویٰ سپریم کو گمراہ کرنے کے لئے تھا، رپورٹ
(صفحات 52 تا 151) (عمران وسیم)
وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے پیش کئے گئے دستاویزات میں عدم مطابقت پائی گئی، رپورٹ
اسلام آباد، مریم نواز نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں، رپورٹ
اسلام آباد، مریم نواز لندن فلیٹس کی 2012 سے پہلے کی مالک ہیں، رپورٹ
لندن جائیدادوں کی ملکیت کے حوالے سے مریم نواز کی موجودہ حیثیت ریکارڈ کے بغیر چیک نہیں ہوسکتی، رپورٹ
�مریم نواز کی جانب سے آف شور کمپنیوں کی پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور خودساختہ ہے، رپورٹ
�ٹرسٹ ڈیڈ عدالت کو گمراہ کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، رپورٹ
�اسلام آباد، جے آئی ٹی کو مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، رپورٹ
�مریم نواز اور حسین نواز نے جان بوجھ کر حقائق کو چھپایا، رپورٹ
�قطری شہزادے کی جانب سے شریف خاندان کی سرمایہ کاری کی تفصیلات جعلی قرار
�جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کی فراہم کردہ تفصیلات خودساختہ قرار دے دیں
�قطری دستاویزات شریف خاندان کی منی ٹریل کی خلاف پر کرنے کیلئے بنائی گئی، رپورٹ
�مریم اور حسین نواز کے درمیان لکھی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور جعلی قرار
�اسلام آباد، بلاشبہ مریم نواز لندن فلیٹ کی مالک ہیں، رپورٹ
�حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کی فراہم کردہ دستاویزات جعلی اور خودساختہ ہیں، رپورٹ
�یہ تسلیم شدہ ہے کہ لندن فلیٹس 1993 سے شریف خاندان کے زیراستعمال ہیں، رپورٹ
�لندن فلیٹس پر قبضے کے حوالے سے نوازشریف اور انکے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، رپورٹ
�حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف بار بار تبدیل کرتے رہے، رپورٹ
�اسلام آباد، مریم نواز اور حسین نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کئے، رپورٹ
�دونوں نے آف شور کمپنیوں کے بیرئر سرٹیفیکیٹس کو کبھی دیکھا ہی نہیں، رپورٹ
�میاں شریف کے انتقال کے بعد شریف خاندان کے اثاثوں کی تقسیم ہوئی، رپورٹ
�جائیداد کی تقسیم میں لندن فلیٹس یا بیرون ملک کسی جائیداد کا ذکر نہیں، رپورٹ
�شریف فیملی کی خواتین خاندان کے مردوں کے حق میں اپنی وراثتی جائیداد کے حق سےدستبردار ہوئیں، رپورٹ
�لندن فلیٹ کے حوالے سے میاں شریف اور نوازشریف کا کوئی بھی وارث حسین نواز کے حق میں دستبردار نہیں ہوا، رپورٹ
�۔90 کے اوائل میں لندن فلیٹ کی مالک نوازشریف بشمول شریف فیملی تھی، رپورٹ
�نوازشریف نے لندن فلیٹ میں اپنی بینیفیشل ملکیت چھپانے کیلئے آف شور کمپنیوں اور اپنے بچوں کو استعمال کیا، رپورٹ
�اسلام آباد، الثانی خاندان کا لندن فلیٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا، رپورٹ
�التوفیق کمپنی کو 8 ملین ڈالر الثانی خاندان کی جانب سے ادا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا، رپورٹ
�سال 2000 میں حسن اور حسین نواز کے پاس انفرادی آمدن کے کوئی ذرائع نہیں تھے، رپورٹ
�سال 2000 میں حسن اور حسین نواز اپنے خاندان کے زیرکفالت تھے، رپورٹ
�حسین اور حسن نواز کے پاس لندن فلیٹ خریدنے کے کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے، رپورٹ
�لندن کے فلیٹس قطری خاندان کی جائیدادیں نہیں تھیں، رپورٹ
�قطری سرمایہ کاری کے بدلے لندن فلیٹس کا ملنا محض افسانہ ہے، رپورٹ
�نوازشریف، حسین، حسن اور مریم نواز قطری خط کے مندرجات دستاویزی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی
�اسلام آباد، پہلا قطری خط سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے، جے آئی ٹی
�لندن فلیٹس کے سرٹیفیکیٹس قطر میں کس کے پاس تھے شواہد نہیں ملے، جے آئی ٹی
�شریف فیملی اور الثانی خاندان کے درمیان دیرپا تعلقات کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی، جے آئی ٹی
�دبئی اسٹیل مل کے قیام اور فروخت کیلئے ٹھوس دستاویزات فراہم نہیں کئے گئے، جے آئی ٹی
�جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کا بیان حلفی مسترد کردیا، جے آئی ٹی
�طارق شفیع نے کبھی بھی گلف اسٹیل مل کی فروخت سے ملنے والے 12 ملین درہم وصول نہیں کئے، رپورٹ
�شریف فیملی نے اپنے بیانات میں کبھی قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، جے آئی ٹی
�طارق شفیع کے پہلے بیان حلقی میں قطری سرمایہ کاری کا کوئی ذکر نہیں تھا، رپورٹ
�پناما پیپرز منظرعام پر آنے کے بعد طارق شفیع اور حسین نواز لندن میں اکٹھے تھے، جے آئی ٹی
�(جے آئی ٹی رپورٹ / کیسز کی تفصیلات) (صفحات 152 تا 196) (عدیل وڑائچ )
�جے آئی ٹی کی نیب میں لندن فلیٹس کی خریداری سے متعلق ریفرنس دوبارہ کھولنے کی سفارش۔۔۔ یہ معاملہ سترہ اٹھارہ سال سے نیب میں زیر التواء ہے۔�سارا پنامہ کیس اسی کے گرد گھومتا ہے۔ موجودہ پنامہ کیس میں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کی کارروائی سے ایسے نئے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں جس کی بنیاد پر یہ سفارش کی جاتی ہے کہ نیب کو حکم دیا جائے کہ کسی تاخیر کے بغیر ہی کیس کی تحقیقات مکمل کی جائیں۔ �نیب میں 2000ء سے رائیونڈ اراضی خریدنے اور اس کیلئے اختیارات کا غلط استعمال کرکے رائیونڈ محل تک سڑک بنوانے سے متعلق دو معاملات زیر التواء ہیں۔اتنے عرصے میں اب تک تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہوئیں۔ اسے بھی کسی بھی تاخیر کے بغیر مکمل کی جائے۔
�شریف ٹرسٹ کو سامنے رکھ کر بے نامی جائیداد بنانے کا بھی الزام ہے۔ جلد از جلد مکمل کی ا جائے۔
�نوازشریف کیخلاف ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات بھی مکمل کی جائیں۔
�بطور وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف کیخلاف ایل ڈی اے میں غیر قانونی پلاٹوں کی تحقیقات جلد مکمل کی جائیں۔
�(دوبارہ کھولنے کی سفارش)
�نیب کو حکم دیا جائے کہ نوازشریف ، سیف الرحمان کیخلاف ہیلی کاپٹر خریداری کیس کا دوبارہ جائزہ لے اور سپریم کورٹ کے ذریعے ہائیکورٹ سے کیس دوبارہ کھولنے کیلئے رابطہ کیا جائے۔ کیونکہ خریداری میں قطری تعلق جعلی ہے۔
�شریف خاندان کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے حدیبیہ سمیت 3 مقدمات کھولنے کی سفارش
�رائونڈ اسٹیٹ میں اضافی مینشن بنانے کا ریفرنس دوبارہ کھولنے کی سفارش
�اس کے علاوہ ریکارڈنہ ہونے کے باعث ایک ریفرنس کا نیب نے ذکر نہیں کیا ۔ وہ امریکا میں ٹرسٹ کے قیام سے متعلق ہے۔ اس کا حدییبہ پیپر ملز کیس سے بنیادی تعلق بنتا ہے اس لئے نیب کو حکم دیا جائے کہ اسے بھی دوبارہ کھولا جائے۔
�ایف آئی اے کو حدیبیہ انجیئرنگ کیس بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا جائے۔ حدیبیہ پیپرز ملز بھی دوبارہ کھولا جائے۔
�ایس ای سی پی میں چودھری شوگر ملز کیس بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا جائے۔
�(حدییبہ پیپرز ملز کیس)
�شریف خاندان کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے حدیبیہ سمیت 3 مقدمات کھولنے کی سفارش
�موصول اضافی شواہد کی روشنی میں تینوں مقدمات دوبارہ کھولے جانے کیلئے بہترین ہیں،رپورٹ
�عدالت ان کیسز میں نامزد لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، رپورٹ
�جے آئی ٹی کی سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش
�جے آئی ٹی کو ملنے والے شواہد ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں ربط ثابت کرتے ہیں،رپورٹ
�شریف خاندان کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق ایف آئی اے اور نیب کے سمیت 3 مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش
�موصول اضافی شواہد کی روشنی میں تینوں مقدمات دوبارہ کھولے جانے کیلئے بہترین ہیں،رپورٹ
�عدالت ان کیسز میں نامزد لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، رپورٹ
�جے آئی ٹی کی سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش
�جے آئی ٹی کو ملنے والے شواہد ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں ربط ثابت کرتے ہیں،رپورٹ
�جے آئی ٹی رپورٹ / ذرائع آمدن سے زائد اثاثے اور سفارشات (صفحہ 201 تا 254) (عدیل وڑائچ)
�(نوازشریف)
�ریکارڈ کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے 84-1983ء سے ریٹرنز فائل کرنے شروع کئے، رپورٹ�وزیراعظم نے 15 جون کو بیان میں کہا کہ وہ اپنے والد کی کمپنیوں میں شیئر ہولڈر رہ چکے ہیں،رپورٹ
�وزیراعظم کا موقف تھا کہ وہ 1985ء کے بعد کاروبار میں متحرک نہیں رہے، جے آئی ٹی رپورٹ
�مگر وزیراعظم نے 2010ء سے 2013ء کے درمیان چودھری شوگر ملز سے 24ملین تنخواہ لی،رپورٹ
�چودھری شوگر ملز سے تنخواہ وصول کرنا وزیراعظم کے ٹیکس ریٹرنز میں بھی درج ہے،رپورٹ
�وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کے درمیان بینک ٹرانزکشنز کا پتہ چلایا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ
�۔2009ء سے 2017ء تک حسین نواز نے اپنے والد کو 1.4 ارب روپے بھجوائے، رپورٹ
�وزیراعظم نوازشریف نے 822 ملین روپے مریم نواز کے بینک اکائونٹ میں منتقل کئے،رپورٹ
�وزیراعظم نوازشریف نے 2013ء کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں غلط بیانی کی، رپورٹ
�وزیراعظم نواز شریف نے 45 ملین روپے کی ٹرانزکشن سے متعلق غلط بیانی کی، رپورٹ
�وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ان کے والد 70ء کی دہائی میں اربوں کے اثاثوں کے مالک تھے، رپورٹ
�وزیراعظم کا یہ بیان ان کے والدین کے ٹیکس ریٹرنز سے ثابت نہیں ہوسکا، جے آئی ٹی
�مالی تفصیلات کا جائزہ لینے کے بعد اس نیتیجے پر پہنچے ہیں کہ وزیراعظم کے اثاثے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، رپورٹ
�برطانیہ اور متحدہ عرب امارت سے تحفے کے طور پر 880 ملین پاکستان منتقل کئے گئے، رپورٹ
�مدعا علیہان بیرون ملک سے آنے والے تحائف کے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے، رپورٹ
�وزیراعظم نے اثاثے بناکر بچوں کے نام منتقل کئے، مگر ان کے واضح ذرائع آمدن نہیں تھے،رپورٹ
�نوازشریف کے مطابق اثاثے 70ء کی دہائی میں ان کے والد کے سرمایئے کی بنیاد پر بنے،رپورٹ
�نوازشریف کے اثاثوں کا مالی تجزیہ ان کے اس موقف کو درست ثابت نہیں کرتا، رپورٹ
�وزیراعظم کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا، رپورٹ
�قاضی خاندان اور سعیداحمد کے نام بے نامی اکائونٹس سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی،رپورٹ
�یہ بے نامی اکائونٹس قرضے لینے اور شریف خاندان کے اثاثوں بنانے کیلئے استعمال کئے گئے،رپورٹ
�شریف خاندان کی بینک اسٹیمنٹس اور ویلتھ اسٹیمنٹس میں تضادات پائے گئے ہیں، رپورٹ
�نوازشریف نے ویلتھ اسٹیمنٹ میں اتفاق شوگر ملز کے حصص ظاہر نہیں کئے،رپورٹ
�نوازشریف 04-2003ء کے درمیان اتفاق شوگر ملز کے 48 ہزار حصص کے مالک تھے،رپورٹ
�وزیراعظم نوازشریف 2009ء سے 2013ء تک اتفاق شوگر ملز کے 1000 شیئرز رکھتے تھے،رپورٹ
�میاں شریف نے بھی بادی النظر میں اپنے ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے، رپورٹ
�میاں شریف کی دولت میں 4.3 گنا اضافہ 93-1992ء کے دوران ہوا، جے آئی ٹی
�نوازشریف نے 1970ء میں فیکٹریاں قومیائے جانے کا بیان دیا، جے آئی ٹی
�فیکٹریاں قومیائے جانے کے باجود شریف خاندان کی دولت میں واضح کمی نہیں ہوئی،رپورٹ
�(مریم نواز)�۔
90ء کی دہائی میں مریم نواز کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا، جے آئی ٹی�
اثاثوں کے تجزیئے اور ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق مریم نواز نے اثاثے چھپائے،ٹیکس چوری کی،رپورٹ
�مریم نواز نے ذرائع آمدن کے بغیر نہ صرف اثاثے بنائے بلکہ کروڑوں روپے قرض بھی دیا، رپورٹ
�اسلام آباد؛ مریم نواز نے 2008ء میں کروڑوں روپے کے تحفے وصول کئے، جے آئی ٹی
�مریم نواز نے تحفے میں ملنے والی رقم زرعی زمین خریدنے کیلئے استعمال کی، جے آئی ٹی
�زرعی آمدن چونکہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہے اس لئے فنڈز کو قانونی بنانے کیلئے استعمال کیا گیا،رپورٹ
�بادی النظر میں مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، جے آئی ٹی
�(حسین نواز)
�حسین نواز کے اثاثے 1990ء کی دہائی میں غیر معمولی طور پر بڑھے، جے آئی ٹی
�متعدد مرتبہ کہنے کے باجود حسین نواز ذرائع آمدن کی کوئی تفصیل نہ دے سکے،رپورٹ
�شریف خاندان 1990ء کی دہائی میں اقتدار کے ایوانوں میں تھا، جے آئی ٹی �جے آئی ٹی کو یقین یہ ہے کہ شریف خاندان کے اثاثوں میں اضافہ غیر قانونی طور سے ہوا، رپورٹ
�حسین نواز کو شریف خاندان کی پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا، جے آئی ٹی
�(حسن نواز)
�حسن نواز کے اثاثوں میں بھی 90ء کی دہائی میں اضافہ ہوا، جے آئی ٹی
�حسن نواز کو بھی پراکسی کے طور پر استعمال کیا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ
�حسن نواز کی کمپنیاں خسارے میں تھیں مگر ان کے ذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدی گئیں،رپورٹ
�خسارے کی کمپنیوں سے پاکستان میں شریف خاندان کی کمپنیوں کو قرض دیئے گئے،رپورٹ
�حسن نواز نے بھی متعدد مواقع کے باوجود اپنے ذرائع آمدن کا کوئی ثبوت دیا، رپورٹ
�بادی النظر میں حسن نواز کے اثاثے بھی ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے،رپورٹ
�(اسحاق ڈار)
�اسحاق ڈار نے بادی النظر میں 1981ء سے 2002ء تک ٹیکس چوری کی، رپورٹ
�اسحاق ڈار نے 1981ء سے 2002ء تک انکم ٹیکس ریٹرنز ہی فائل نہیں کئے،رپورٹ
�اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 09-2008ء میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر انھوں نے ذرائع آمدن نہیں بتائے،رپورٹ
�اسحاق ڈار کی مالی تفصیلات اور ایف بی آر ریکارڈ میں تضاد پایا گیا، جے آئی ٹی
�اسحاق ڈار نے اپنے ہی ادارے کو 169 ملین روپے خیرات میں دیئے، جے آئی ٹی
�اسحاق ڈار نے چندے کی رقم اپنی رسائی میں رکھی اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ ذاتی خرچہ ظاہر کیا، رپورٹ
�اسحاق ڈار اتنی بڑی رقم پر ٹیکس استثنیٰ لیکر ٹیکس چوری کی، جے آئی ٹی
�اسحاق ڈار کے اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت نہیں، جے آئی ٹی
�نوازشریف ، مریم، حسین اور حسن کے اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت نہیں،رپورٹ
�شریف خاندان کی پاکستانی کمپنیوں کی مالی حالت ان کی جائیداد سے مطابقت نہیں رکھتی،رپورٹ
�شریف خاندان کی ظاہر کی گئیں جائیداد اور ذرائع آمدن میں عدم مساوات ہے، جے آئی ٹی
�سعودی عرب،برطانیہ اوریو آئی اے کی کمپنیوں سے نوازشریف اور حسین کو رقم کی غیر قانونی منتقلی ہوئی، رپورٹ
�جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف خاندان کی 3مزید آف شورکمپنیز کا انکشاف
�الاناسروسز،لینکن ایس اے اورہلٹن انٹرنیشنل سروسزکا انکشاف
�اس سے قبل نیلسن، نیسکول اورکومبرگروپ نامی کمپنیزمنظرعام پرآئی تھیں
�آف شور کمپنیزبرطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبارسے منسلک ہیں،رپورٹ
�آف شورکمپنیزبرطانیہ میں موجودکمپنیوں کورقم فراہمی کیلئےاستعمال ہوتی ہیں،رپورٹ
�آف شور کمپنیز کے پیسے سے برطانیہ میں مہنگی ترین جائیدادیں خریدی گیئں،رپورٹ
�پیسہ برطانیہ،سعودی عرب،یواے ای اور پاکستان کی کمپنیوں کو بھی ملتا رہا،رپورٹ
�نوازشریف اور حسین نواز یہ فنڈز بطورتحفہ اور قرض وصول کرتے رہے،رپورٹ
�تحفے اور قرض کی وجوہات سے جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کیا جاسکا،رپورٹ
�آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کے ذریعے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں بنائی گئیں، رپورٹ
�جے آئی ٹی وزیراعظم، مریم، حسین اور حسن کیخلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کی سفارش کرتی ہے، رپورٹ
�شق 9 کی ذیلی شق اے پانچ کے تحت عوامی عہدہ رکھنے والے یا دوسرے شخص ، یا اس کے زیر کفالت افراد کا ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنا جرم ہے، رپورٹ
�جے آئی ٹی رپورٹ میں قانون شہادت آرڈر 1984ء کے آرٹیکل 122 اور 117 کا حوالہ
�قانون شہادت آرڈر کے تحت بار ثبوت ملزم پر ہوتا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ
�تمام مدعا علیہان ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی رپورٹ
�شریف خاندان اپنے اثاثوں اور ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہا، جے آئی ٹی رپورٹ

~~~~~~~~~~~~~~
نواز شریف کے کارنامے ۔۔ فیکٹ شیٹ:

٭عوامی مقبولیت کی بجاۓ جنرل ضیاء ڈکٹیٹر سے آغاز

٭الیکشن میں آئی ایس آئی سے پیسے لینا
چھانگا مانگا کی سیاست کا آغاز

٭کرپشن کی وجہ سے نااہلی پر سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ

٭مرحوم جج سپریم کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے بقول نوازشریف نے ان کو پیسے سے خریدنے کی ناکام کوشش کی

٭آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی جبری ریٹائرمنٹ

٭منی لانڈرنگ کے پیسے سے 1992 میں لندن فلیٹس کی خفیہ خریداری

٭صدر غلا اسحٰاق سے پنگا
٭صدر غلام اسحٰاق کا نوازشریف کو نااہل کرنا

٭صدر غلام اسحاٰق نے کہا تھا کبھی نوازشریف پہ اعتبار نہ کرنا یہ اقتدار کی خاطر صوبوں کو لڑا دے گا

٭نوابزادہ نصراللہ خان نے کہا تھا نوازشریف جب مشکل میں ہوتا ہے تو پاٶں پکڑتا ہے اور جب اقتدار میں ہوتا ہے تو گریبان پکڑتا ہے

٭بےنظیر اور اس کی والدہ نصرت بھٹو کی شرمناک کردار کشی کی ٭شرمناک جھوٹی ممظ اور ہیلی کاپٹر سے ان کی جعلی برہنہ تصاویر شہریوں پہ پھینکوانا

٭جنرل ضیاء کے تلوے چاٹے اور بھٹو جیسے بین الاقوامی مقبول لیڈر کی پھانسی میں گھٹیا کردار

٭کارگل جنگ کے دوران امریکی حکم پر اپنی فوج کی مخالفت کر کے فوج کو بھاری جانی نقصان پہنچانا

٭جنرل پرویز مشرف کی جبری نااہلی کی گھٹیا سازش

٭پرویز مشرف کا نوازشریف کو قید کر لینا

٭نوازشریف کا بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ جدہ جانے کا معاہدہ کرنا مگر معاہدہ سے انکار کرنا

٭سعودی وزیرخارجہ کا معاہدے کی تصدیق کرنا

بےنظیر سے مل کر پرویزمشرف سے ٭معاہدہ کر کے ملک واپس آنا

دھاندلی کر کے دوبارہ وزیراعظم بننا

٭امریکی صحافی عورت سے دوستی کی خواہش کا اظہار اور اس صحافی کا نوازشریف کی اس حرکت کا پوری دنیا کے سامنے لانا نوازشریف نے آج تک اس حرکت کی تردید نہیں کی

٭پنجاب پولیس میں ناجائز بھرتیاں کر کے پولیس کو سیاسی بنا دینا

٭ججوں کو خرید لینا

٭کرپشن کرنا اور کرپٹ لوگوں کو اوپر لے کے آنا

٭اداروں سے ایماندار لوگوں کو زبردستی نکالنا اور اپنی مرضی کے لوگ لگانا

٭پی آئی اے, سٹیل مل، ریلوے پہ نااہل لوگ بٹھا کے ان اداروں کو تباہ کرنا

ایف آئی اے, نیب کو تباہ کرنا

٭اسحٰق ڈار کا نوازشریف کے لیے منی لانڈرنگ کا اعتراف

٭ووٹوں کی خاطر اپنی جماعت میں ہر علاقے کے مافیاز کو شامل کرنا

٭کرپٹ عناصر کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا

٭ادارے تباہ کرنارشوت اور کرپشن کا کلچر عام کرنا

٭ماڈل ٹاٶن میں میڈیا کے سامنے 14 افراد کو پولیس کے ذریعے قتل کروانا اور کسی کو سزا نہ ملنا بلکہ قتل میں ملوث لوگوں کو بیرون ملک بھجوا دینا

٭الیکشن دھاندلی پہ کمیشن سے انکار اور پی ٹی آئی کو دھرنے پہ مجبور کرنا

٭ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی سے ذاتی تعلقات کی بنا پر اس کو اپنے گھر بلا کر کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات سے کھیلنا

٭انڈیا میں جا کر اپنی فوج کے خلاف یہ کہہ کر ہرزہ رسائی کرنا کہ پاکستانی فوج نے آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا

٭انڈیا میں جا کر دو قومی نظریہ کی یہ کہہ کر تردید کرنا کہ مسلمانوں اور ہندٶوں کلچر ایک ہی ہے

٭پانامہ میں نوازشریف کی اربوں روپے کی کمپنیوں کا انکشاف ہونا

٭قطر سے ذاتی سطح پہ کھربوں روپے کی ایل پی جی کی مہنگی ڈیل کرنا

٭ملک کو وزیرخارجہ کے بغیر چلانا

٭اپنی بیٹی کو بغیر کسی سرکاری عہدے کے اربوں روپے کے یوتھ قرضہ سکیم کی ہیڈ بنا دینا

٭پانامہ لیکس آنے سے پہلے حسین نواز کا پری پلانڈ انٹرویو کروانا

٭پانامہ لیکس میں نام آنے کی وجہ سے پوری دنیا میں ملکی بدنامی کا باعث بننا

٭پانامہ سے بچنے کے لیے شہر شہر ائیرپورٹوں یونیورسٹیوں ہسپتالوں اور بڑے بڑے پراجیکٹ کے اندھادھند اعلانات کرنا مگر کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کرنا

٭ خود پانامہ کا سامنا کرنے کی بجاۓ پوری حکومت کو آگے کر دینا

٭اسمبلی میں اور قوم کے سامنے جھوٹ بولنا

٭اپنے وزیروں سے سپریم کورٹ کو دھمکیاں دلوانا

٭مریم کو مریم صفدر سے مریم نواز بنا کر وزیراعظم ہاٶس میں رکھنا

٭مریم نواز کا وزیراعظم ہاٶس میں میڈیا سیل چلانا

٭مریم نواز کا ملکی فوج کے خلاف سازش کر کے فوج کو دنیا میں بدنام کرنے کی مذموم کوشش کرنا

٭گو نواز گو کے نعرے کا بین الاقوامی سطح پہ مقبول ہو جانا

دوستو! یہ ہیں نوازشریف اور شریف فیملی کے چند کرتوت جن میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ان میں سے ایک کرائم بھی کیا ہوتا تو آج یہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہا ہوتا یا پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا ہوتا
~~~~~~~~~~~~~~~~~~ داستان کرپشن
کتابوں میں پڑھا تھا کہ کسی بستی کے رہنے والے لوگ حد درجہ گناہوں میں مبتلا ہوچکے تھے اور ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے فرشتے کو حکم دیا کہ اس بستی کو تباہ کر آئے۔ فرشتے نے پوچھا کہ یا اللہ، اس بستی میں ایک بہت نیک اور پرہیزگار بزرگ بھی رہتا ہے، اگر حکم ہو تو اسے چھوڑ دیا جائے؟
اللہ تعالی نے فرمایا کہ اسے سب سے پہلے ہلاک کرو!
انگلش کا محاورہ ہے کہ طاقت انسان کو کرپٹ بناتی ہے اور حد سے زیادہ طاقت انسان کو حد سے زیادہ کرپٹ بناتی ہے۔
1983 میں میاں شریف اپنے بڑے بیٹے نوازشریف کا ہاتھ پکڑ کر اسے گورنر ہاؤس لے گیا اور اسے گورنر، جنرل جیلانی کی زیرسرپرستی دے دیا۔
نوازشریف خاندان کی پیپلزپارٹی سے نفرت دیکھتے ہوئے اسے فی الفور صوبائی وزیرخزانہ کا عہدہ مل گیا اور پھر طاقت کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔
اگلے دو سال میں نوازشریف نے ایک طرف اپنے خاندان کی ملوں میں 5 گنا اضافہ کرلیا، دوسری طرف پلاٹوں، پرمٹس اور ڈسکریشنری فنڈز کا بے دریغ استعمال شروع کیا۔ اگلے دو سال بعد غیرجماعتی انتخابات ہوئے اور نوازشریف جنرل ضیا کی رضامندی سے وزیراعلی بن گیا۔
1985 سے 1990 تک پنجاب میں نوازشریف نے بطور وزیراعلی اپنے استحقاق کو استعمال کرتے ہوئے ساڑھے تین ہزار سے زائد قیمتی سرکاری پلاٹ اپنے عزیز و اقارب میں ریوڑھیوں کی طرح بانٹے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوازشریف نے استحقاقی فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے ساڑھے 3 ارب سے زائد رقم ڈونیشن اور چیریٹی کی مد میں سیاسی رشوت کے طور پر تقسیم کی۔ تیسرے نمبر پر نوازشریف نے اپنے حلقے میں ووٹ لینے کیلئے اپنے کارکنان کو بغیر کوالیفیکیشن کے سرکاری نوکریاں دیں۔ ایک وقت تھا جب گوالمنڈی کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی نوجوان یا تو پولیس کانسٹیبل تھا، یا پھر محکمہ مال، کارپوریشن، ایل ڈے اے وغیرہ میں مفت کی روٹیاں توڑتا تھا۔
طاقت انسان کو کرپٹ بناتی ہے!
پلاٹوں، فنڈز اور نوکریوں کی یہ نوازشات اخبارات میں صحافیوں پر بھی ہوئیں اور پھر نوائے وقت سے لے کر جنگ اخبار تک، جتنے بھی دائیں بازو یا بائیں بازو سے ٹوٹ کر آنے والے صحافی تھے، سب کے سب نوازشریف کے زرخرید غلام بن گئے۔ آپ اس دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، عبدالقادر حسن، مجیب شامی، نذیرناجی، الطاف حسن قریشی، زیڈ اے سلہری، ارشاد احمد عارف سمیت جتنے بھی مشہور کالم نویس ہوا کرتے تھے، سب کے سب نوازشریف کی مدح سرائی میں مصروف رہا کرتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب نوازشریف نے نہ تو موٹروے بنائی تھی، نہ ہی پیلی ٹیکسی کی سکیم لانچ کی تھی، نہ ہی لاہور میں انڈرپاس بنایا تھا، اور نہ ہی لیپ ٹاپ تقسیم کئے تھے، اس کے باوجود بھی ان کالم نویسوں نے نوازشریف کو اس صدی کا سب سے بہترین لیڈر ثابت کرنے کی کوششیں جاری رکھیں کیونکہ پلاٹس، پرمٹس، فنڈز اور نوکریوں کی کشش اتنی زیادہ تھی کہ ان کی آنکھیں چکاچوند ہوچکی تھیں۔
میڈیا کے زریعے امیج بلڈنگ کا فن نوازشریف نے اس وقت ہی سیکھا اور آج اس کی ٹیکنیک کو ماسٹر کرچکا ہے۔ 80 کی دہائی ہو یا 2017 کا زمانہ، ہر طرح کے صحافیوں اور کالم نویسوں کی کثیر تعداد آج بھی آپ کو نوازشریف کے گرد ہی منڈلاتی نظر آئے گی کیونکہ وجہ آج بھی وہی ہے، فنڈز، نوکریاں اور سرکاری مراعات۔
حد سے زیادہ طاقت انسان کو حد سے زیادہ کرپٹ بناتی ہے۔
نوازشریف کو ملی ہوئی اس طاقت نے پھر اسے کرپشن کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اپنی بند فیکٹریوں پر اربوں روپے کے قرض لیتا گیا اور انہیں معاف کرواتا گیا ۔ ۔ ۔ ٹیکس چوری، رشوت، ٹھیکوں میں کمیشن، الغرض ناجائز آمدنی کا کوئی ایک سورس ایسا نہ تھا جو نوازشریف نے بطور حکمران آزمایا نہ ہو۔ ملکی ادارے تباہ، معیشت دگرگوں اور عوام کا سفر پستی کی طرف جاری رہا اور نوازشریف کی فیملی ایمپائر میں ہر سال کئی گنا اضافہ ہوتا گیا۔
35 سال میں پہلی دفعہ نوازشریف قانون کے شکنجے میں آیا ہے اور آج بھی آپ کو ذہنی غلام یہ کہتے نظر آئیں گے کہ نوازشریف ہی کیوں، زرداری اور دوسرے کرپٹ لیڈروں کو بھی پکڑا جائے۔
بات یہ ہے کہ اگر زرداری کرپٹ ہے، جو کہ وہ یقینناً ہے، تو پھر نوازشریف نے اسے کیوں نہیں پکڑا؟ اگر آپ کے خیال میں دوسرے سیاستدان، جج اور بیوروکریٹ نوازشریف سے زیادہ کرپٹ ہیں تو پھر ان دونوں بھائیوں نے ان احتساب کا نظام وضع کرکے ان کے خلاف کاروائی کیوں نہ کی؟
مختصراً عرض ہے کہ موجودہ نظام کا سب سے کرپٹ ترین شخص نوازشریف ہے۔ یہ اس سسٹم اور معاشرے میں کرپشن کا ایک سمبل بن چکا ہے۔ اگر اس سمبل کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو یہ دوسرے لوگوں کیلئے ایک بہت بڑا میسج بنے گا کہ اگر نوازشریف نہ بچ سکا تو ان کی بھی خیر نہیں۔
ویسے بھی یہ اللہ کی سنت ہے کہ اگر گناہگاروں کی بستی میں جس شخص کی ذمے داری تھی کہ وہ دوسروں کو گناہوں سے روکتا لیکن وہ اس میں ناکام رہا، تو سب سے پہلے اسے تباہ کیا جائے۔
ہم نے تو پہلے ہی بہت دیر کر دی اس کرپٹ ترین شخص کو سزا دینے میں۔ جو شخص بھی اس کی سزا میں رکاوٹ بنے گا اور نوازشریف کو بچانے کیلئے نت نئی تاویلیں گھڑے گا، انشا اللہ تباہی اس کا بھی مقدر ہوگی!!!
 (Credit :Shahid Saki(


مسلم لیگ ن کے کارکنان سے دلی ہمدردی ہے کہ شریف برادران نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور تیس سال سے انکو بیوقوف بنا کر حکومت کرتے رہے.  مکافات عمل ہے اور الٹا پہیہ گھومنا ہی تھا.  اسلئے تمام کارکنان سے گزارش ہے کہ سب نے اپنی قبر میں جانا ہے جسطرح جے آئی ٹی کے سامنے یہ خاندان انفرادی طور ہر پیش ہوا ہے اسطرح اللہ کے سامنے بھی ہم سب نے اکیلے اکیلے جانا ہے.  وہاں کسی کو کوئی نہ بچا سکے گا اور سب لوگ اپنے جزا و گناہ کا بھار اٹھائیں گے تو پھر کہیں یہ نہ ہو کہ آپ کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو لیکن دوسری طرف کرپٹ حکمرانوں کی حمایت کے گناہ دوسرا پلڑا بھاری کر دیں.  اسلئے کسی کے گناہوں کا بوجھ مت اٹھائیں اور نہ انکی حمایت میں اس قدر جائیں کہ واپسی کا راستہ نہ رہے اگر آپ کو عمران خان سے نفرت ہے تو کوئی اور لیڈر ڈھونڈھ لو مسلم لیگ میں یا باہر جماعت اسلامی نیک لوگ ہیں۔




Politics for Pakistan: ♤♡◇♧
Supporting a favourite political party or leader for good manifesto and works is part of political process. ....... One thing which bothers .... is ... that …

Why we have to support every action of our favourites irrespective of its obvious demerits....
1)  Is our favourite political leader inerrant?    
2). Does he enjoy some special privileges or powers from above?
3) Is he a normal human being who can go wrong?
4) Can you use your mind to differentiate between right and wrong?
5) Can your fair criticism put him on right direction and save him from humiliation?
Please look inward to find honest answers ... correct your approach ...
Be realistic... Support Pakistan


JIT on Panama Papers: https://goo.gl/qED96g
Related:
http://pakistan-posts.blogspot.com/p/corruption.html

Panama Papers Leaks - Offshore Companies and Corruption allegations Nawaz Sharif Family, Pakistani Stalwarts



Arguably the most dangerous nation on Earth, Pakistan is a bubbling cauldron of corruption and crime, where grasping politicians, greedy generals, drug smugglers, and terrorists intermix in a volatile web, made more ...

King of corruption Zardari appoints his frontman "Raja Rental" [Sindhi by birth disguised as Punjabi] pas new PM of Pakistan. ...MQM, PML Q , ANP and all those 211 MNAs who voted for him are party to this corruption.
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page

Imran Khan: Marriage & Jewish Connectionعمران خان ، یہودی لابی اور سیتا وائیٹ

$
0
0
AZADI Magazine : http://flip.it/sQjQZ
  View  Azadi Magazine.

After failing to response to corruption, misgovernance allegations of IK, the frustrated  opponents are launching personal attack at Imran Khan. Imran Khan, married Jamima Goldsmith, her father Sir James Goldsmith was Christian, his father was Jewish and his mother Catholic; Goldsmith converted to Christianity. Jamima, a Christian, converted to Islam before her marriage with Imran Khan. They have two children but the marriage ended in divorce. 
Lets see this in the light of Quran;5:5 and Sunnah, which allows Muslim to marry women from the People of the Book. [Christian or Jewish].
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴿٥
This day are (all) things good and pure made lawful unto you. The food of the People of the Book is lawful unto you and yours is lawful unto them. (Lawful unto you in marriage) are (not only) chaste women who are believers, but chaste women among the People of the Book, revealed before your time,- when ye give them their due dowers, and desire chastity, not lewdness, nor secret intrigues if any one rejects faith, fruitless is his work, and in the Hereafter he will be in the ranks of those who have lost (all spiritual good). (Quran 5:5)

Prophet Muhammad (pbuh) married two Jewish women, Safiyyabint Huyayy, Rayhana bint Zayd, while Maria al-Qibtiyya was an Egyptian Coptic Christian, [ra] they are known to have accepted Islam. Imran Khan did not violate Quran or Sunnah when he married a Christian women, who converted to Islam. One must be very careful while criticizing or making fun of some thing which is permitted by Quran and Sunnah. Lets he invites rage of Allah. (Quran;7:32)
One wife of the prophet Safiyyah bint Huyayee Pbuh , she was a Jewish lady who lived in Khaibar , a City north of Medina . Briefly she was captured during the battle of Khaibar, in which Muslims armies won the battle and captured the city and they freed her and she become the wife of Prophet Muhammad Pbuh so Ummul Momeneen [mother of Muslims]. she was a daughter of Great Jewish Leader in Khaibar . Her husband was killed in the war . She was a widow . She was freed and treated with respect ! . It is a traditions of Pro Muhammad pbuh to spread peace and to instate LOVE and peace and stability after war in the region , to join Muslims with any losing enemies , to eradicate hate and revenge. At this juncture , Pro Muhammad Pbuh proposed to Saffiyah for marriage she simply accepted it . Hazrat Saffiyah Pbuh was converted to Islam.
Once Habsyah Pbuh , a wife of the prophet , despised her with Jealousy because she had much attentions from the Prophet. Habsyah pbuh called her name " Hi Jewish daughter ". Safiyyah cried and humiliated and told Pro Muhammad Pbuh the situations , in REPLY . Prophet Muhammad [Pbuh] told her: " why did not you answer back to Habsah [Pbuh] , My husband was Muhammad [PBUH] , My Father was Harun [Pbuh] and my Uncle was Moses [Pbuh]."

Umul Momeneen Safiyyah continued to observed Saturday the Jewish holy day and had good relations with the Jews. Her slave girl told the two situations to Syd Omar MAPWH and Omar asked about the accusations . She reply She will put much attentions to Friday than Saturday and with regards to the Jews , she told Omar , even Pro Muhammad Pbuh had kind relations with his relations that were pagans . On that Omar peacefully leave to what she did .  She died in year Hijra 50 , during Muawiyah period , She was buried in great Jannatul Baqi in Medina , along with great muslims .         
According to a hadith, Prophet Muhammad's (pbuh) contemporaries believed that due to Safiyya's high status, it was only befitting that she be manumitted and married to Prophet Muhammad (pbuh).Modern scholars believe that Prophet Muhammad (pbuh) married Safiyya (r.a) as part of reconciliation with the Jewish tribe and as a gesture of goodwill. John L. Esposito states that the marriage may have been political or to cement alliances. Haykal opines that Muhammad's manumission of and marriage to Safiyaa was partly in order to alleviate her tragedy and partly to preserve their dignity, and compares these actions to previous conquerors who married the daughters and wives of the kings whom they had defeated. According to some, by marrying Safiyyah, Prophet Muhammad
 (pbuh) aimed at ending the enmity and hostility between Jews and Islam.
http://en.wikipedia.org/wiki/Muhammad's_wives

The common misconception that; “The Muslims are commanded by Qur’an to be hostile with the non Muslims”, is far from truth. On the contrary Qur’an urges the Muslims to keep normal relationship with non Muslims based upon, “Equity, Kindness and Love” [Qur’an;60:7-9]. The Christians and Jews being ‘people of scripture’ are accorded special status, to the extent that Muslims are allowed to eat their food [kosher] and marry their chaste women, what else could be the level of intimacy! Muslims are urged to resist oppression and fight in self defense with those who expel or aid in expelling them from their homes due to their faith and belief. Those non Muslims who do not indulge in such an activity against them are to be treated with kindness and equity [Qur’an:22:39-40]The actual cause of antagonism with non Muslims is not their disbelief but their hostility to Islam and their tyrannical treatment of the followers of Islam, Zionism is racism in Palestine. Jews of Madina were treated as equal citizen but their treachery resulted in expulsion and punishment according to Torah law. Jews and Arabs are descendants of Prophet Abraham (pbuh). Prophet Muhammad (pbuh) being an Arabs is from progeny of Prophet Ishmael (pbuh), the eldest son of  Prophet Abraham (pbuh) and Jews from the progeny of Prophet Isaac (pbuh), step brother and other son of Prophet Abraham (pbuh). More over Prophet Abraham (pbuh) is the spiritual father Muslims, Christians and Jews, all called Children of Prophet Abraham (pbuh).  Hence Muslims in every Salah/ prayer recite Durood-e-Ibrahimi (having a reference to Abraham):
"O Allah, let Your Peace come upon Muhammad and the family of Muhammad, as you have brought peace to Ibrahim and his family. Truly, You are Praiseworthy and Glorious. Allah, bless Muhammad and the family of Muhammad, as you have blessed Ibrahim and his family. Truly, You are Praiseworthy and Glorious".
The Muslims, therefore, should distinguish between the hostile disbeliever and the non-hostile disbeliever, and should treat those disbelievers well who have never treated them evilly. 
Read more : 




    ...................................................
    عمران خان اور سیتا وائیٹ

    عمران خان کے مخالفین جب نواز شریف کی کرپشن کو دلائل سے سپورٹ نہیں کر سکتے تو  سیتا وائیٹ مرحومہ کے  کیلی فورنیا کی عدالت والے کیس کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف پاکستان میں عدالتی کاروائی کا  معاملہ کھڑا کرتے ہیں، وہ سیتا وائیٹ  کی بیٹی ٹیریان کا ذکر کرتے ہیں اور عمران خان کو اس کا  شادی کے بغیر باپ کہتے ہیں-
    ایک بات واضح رہے کہ عمران خان یا کسی بھی سیاسی لیڈر کو سپورٹ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو نعوذ باللہ پیغمبر ، پیر یا ولی الله کا مذہبی درجہ دے دیں- اکثر لوگ اپنے پسندیدہ سیاسی لیڈروں کو فرشتہ اور معصوم سمجھنا اپنے دین و ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں- یہ غلط رویہ ہے-
    ہمارے سیاسی لیڈر ہماری طرح کے انسان ہیں سوائے چند ایک کے اکثریت کی زندگی سکینڈلوں سے بھر پور ہے  جن میں نواز شریف صاحب اور شہباز شریف اور ان کی فیملی کے دوسرے لوگ شامل ہیں، تفصیلات سب کو معلوم ہیں- مگر ان کے ممدوح ان کو فرشتہ ثابت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے-
    انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ غفور الرحیم ہے- اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ سوائے شرک کے ہر گناہ معاف کر سکتا ہے- (قرآن 116;4:48).  وہ لوگ جو مشرک، کافر ہیں اگر موت سے پہلے ایمان لے آیئں تو ان کے تمام پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں- یہ الله کا خاص انعام ہے-
    زنا ایک بہت بڑا گناہ ہیں، چار چشم دید گواہان کی ضرورت ہے جنہوں نے سرمہ سلائی کی طرح عمل کو دیکھا ہو، جو اسی صورت میں ممکن ہے اگر کوئی کھلے عام اس گناہ کا مرتکب ہو- اگر تین گواہان ہوں تو قبول نہیں، اور ان کوبہتان پر اسی کوڑوں کی سزا ہو سکتی ہے-موجودہ ڈی این اے ٹیسٹ سے مدد ممکن ہے مگر اس کو شریعت ماننے کے اجتہاد پرسب  علماء کا اتفاق نہیں- کیوں کہ چار چشم دید گواہان  شریعت میں ضروری ہیں(کھلم کھلا بدکاری) -  غیر شادی شدہ زانی کے لیے کوڑوں کی سزا اور شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا ہے-
    اگرچار چشم دید گواہان نہ ہو تو یہ معاملہ الله کے سپرد ہے وہ گناہ گار کو سزا دے یا بخش دے، ہم کون ہیں اللہ کے معاملہ میں دخل دینے والے-
    لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ ایسے فرد کو کچھ نہ کھا جائے؟ نہیں اگر کوئی گناہگار مشہور ہو تو اس کو نیکی کی نصیحت کرنا چاھیے اچھے طریقه سے- اور اگر کوئی فرد توبہ کر چکا ہو جو اس کے زبانی اقرار اور عمل سے ظاہر ہو تو یہ معاملہ، فرد اور اللہ کے درمیان ہے-

    عن أبي ھریرة أنه قال أتی رجل من المسلمین رسول اﷲ ﷺ وھو في المسجد فناداہ فقال یا رسول اﷲ! إني زنیت فأعرض عنه فتنحّٰی تلقاء وجھه۔ فقال له یارسول اﷲ! إني زنیتُ فأعرض عنه حتی ثنی ذلك علیه أربع مرات۔فلما شھد علی نفسه أربع شهادات دعاہ رسول اﷲ ﷺ فقال: (أبك جنون؟) قال: لا۔قال: (فھل أحصنت؟) قال: نعم۔ فقال رسول اﷲ ﷺ :(اذھبوا به فارجموہ)
    ''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس شخص نے آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔''حضورؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اس نے دوبارہ کہا: ''اے اللہ کے رسولؐ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔''آپؐ اس پر بھی متوجہ نہ ہوئے۔ اس نے چار دفعہ اپنی بات دہرائی، پھر جب اس نے چار مرتبہ قسم کھا کر اپنے جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ''تو پاگل تو نہیں ؟ بولا: 'نہیں !'پھر آپؐ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ وہ بولا: 'جی ہاں ' (میں شادی شدہ ہوں ) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لے جاکر سنگسار کردو۔''
    (صحیح مسلم:1691، صحیح بخاری:6815، ایک عورت نے بھی اسی طرح اصرار کیا صحیح مسلم:1695)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو گناہ گاروں سے در گزر فرماتے جہان تک ممکن تھا مگر ہم جیسے گناہ گار دوسروں پر الزام اور بہتان تراشی سے باز نہیں آتے اللہ ہم کو مواف فرمایے- عمران خان اور سیتا وہائٹ کا معاملہ اللہ کے سپرد-
    دوسری طرف سیاسی رہنما جو پارسائی کے دعوے دار ہیں ان کے دامن پر بھی گندگی کے چھیٹوں کے ساتھ ساتھ کرپشن کے الزامات عدالتی شواہد کے ساتھ موجود ہیں، کرپشن وہ ناسور ہے جس کی سزا اور نقصان ٢٠ کروڑ عوام بھگتے ہیں-
    عوام عمران خان کی اس قوم کے لیے سیاسی جدوجہد . کرپشن کے خلاف جہاد میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں-

    ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
    عمران خان کا گھر ٹوٹا ہے اس بڑے گھر (پاکستان) کو بچانے کے لئے



    کتنی افسوس ناک اور شرم ناک سوچ ہے ان لوگوں کی جو عمران خان پر ذاتی حملہ کرتے ہیں

    عمران خان سے میرا بہت اچھا تعلق ہے اور میں جانتا ہوں طلاق کیوں ہوئی عمران خان کے پاس ٹائم نہیں تھا اور جمائما کی یہ خواھش تھی کہ عمران خان انگلینڈ شفٹ ہو جائیں عمران خان نے ملک چھوڑنے سے انکار کیا ملک کی عوام کو چھوڑنے سے انکار کیا.. سارا وقت پی ٹی آئي، پاکستان اور اس کے مستقبل پر لگا دیا. عمران خان کا گھر ٹوٹا ہے اس بڑے گھر(پاکستان) کو بچانے کے لئے .. ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے جو لوگ اس طرح کی بات کرتے ہیں - حسن نثار


    ...
    ...





    Return from Sarhad صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) سے واپسی

    $
    0
    0
    
    ایبٹ آباد خوبصورت لوگوں کا خوبصورت اور ایک پُرامن ضلع ہے۔ میرے وقت تک یہاں جرائم بہت کم تھے۔ یہاں سال بھر میں اتنے سنگین جرائم (ڈکیتی، راہزنی، قتل، اغوا، اغوا برائے تاوان وغیرہ) وقوع پذیر نہیں ہوتے تھے جتنے میری پچھلی تعیناتی کے ضلع گوجرانوالہ میں غالباً ہفتہ دس دن میں ہوجاتے تھے۔ یہاں کی پولیس شرافت، دیانت ، وضعداری اورعزت نفس کی پاسداری میں پنجاب پولیس سے بہت بہتر تھی ۔ مشتبہ افراد یا ملزمان پر بلاوجہ یا غیرضروری تشدد کا یہاں رواج نہ ہونے کے برابر تھا، تاہم تجربے ، پیشہ ورانہ استعداد کار، انسداد جرائم، امن وامان کے متوقع اور غیرمتوقع چیلنجوں سے نمٹنے اور تفتیشی صلاحیتوں میں پنجاب پولیس اس سے بہت آگے تھی۔ میں نے چارج سنبھالتے ہی ایبٹ آباد پولیس کو پنجاب پولیس کی خوبیوں کی طرف لانے اور اِسے زیادہ سے زیادہ متحرک اورمستعدبنانے کی کوششیں شروع کردیں۔دن اور رات کی گشتوں اورناکہ بندیوں کو نئے سرے سے منظم کیا۔ پولیس سٹیشن کے ریکارڈ کی درستگی اور اسے بروقت اور ہر وقت مکمل رکھنے پر خصوصی توجہ دی۔متوقع اور غیرمتوقع ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ایک ہر دم تیار فورس تیارکی اور اس کی تربیت اور عملی کارروائی کے لئے سٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجر (SOP)بنائے۔ جرائم کی تفتیش ، عدالتوں میں مقدمات کی پراسیکیویشن اور پیروی کے طریق کار میں ضروری ترامیم واصلاحات اور مانیٹرنگ کا جامع نظام ترتیب دیا۔میں نے کوشش کی کہ پنجاب پولیس کی ہر اچھی چیز یہاں متعارف ہوجائے۔

    ان سب اصلاحات کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے اور بہت دیر تک قائم رہے، تاہم میرے دور میں ایبٹ آباد میں کوئی ایسا غیر معمولی یا سنگین واقعہ رونمانہ ہواجو مجھے یا ایبٹ آباد پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کوآزمائش میں ڈالتا، جس طرح کہ گوجرانوالہ میں (میں بعد میں آرپی او گوجرانوالہ بھی تعینات رہا) تب بھی اور اب بھی ہر دوسرے دن اس قسم کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوجاتاہے۔ پروٹوکول اور وی آئی پی سیکیورٹی کے چیلنج، البتہ یہاں بہت تھے، لیکن چونکہ میری اُس وقت تک کی تقریباً ساری سروس راولپنڈی اور لاہور کی تھی، جہاں اس قسم کی ڈیوٹیاں روزمرہ کا معمول ہیں، اس لئے میں اِن کی ادائیگی میں بہت طاق تھا اور میرے لئے اس میں کوئی نئی اور پریشانی والی بات نہیں تھی، بلکہ میں نے اس ڈیوٹی کی انجام دہی کو بھی پنجاب پولیس کے معیار پر اُٹھایا اور تمام سیکیورٹی پلان از سرِنو ترتیب دیئے اور ان پر عمل درآمد بھی کروایا۔ خیبرپختونخوامیں ہزارہ ڈویژن ،خصوصاً ضلع ایبٹ آباد، سیاسی طور پر بہت زرخیز اور فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ تب تو اس کی اہمیت اوربھی زیادہ تھی، کیونکہ 1988ء کے انتخابات میں ،جس کے نتیجے میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تھی، پورے ہزارہ ڈویژن میں ایک دو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام سیٹیں مسلم لیگ نے جیت لی تھیں۔ یہ خطہ شروع سے ہی مسلم لیگی رہاہے، لیکن پیپلز پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت نے جوڑ توڑ کرکے اس خطے کے تقریباً تمام مسلم لیگی ارکان صوبائی اسمبلی کامسلم لیگ کے اندر ہی ایک فارورڈ بلاک بنواکر اسے اپنے ساتھ ملالیا اور انہی کی بدولت صوبہ سرحد میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ اِس فارور ڈ بلاک کو بہت سی وزارتیں دی گئیں اور اُن کی ہر طرح خاطر داری کی جاتی تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر اس سارے عمل میں پولیس کوقطعاً استعمال نہ کیاگیا۔ 

    مجھے ایبٹ آباد کی اپنی پوری تعیناتی کے دوران حکومت یا خود اس فارورڈ بلاک کے ممبران کی طرف سے اس قسم کی کوئی ہدایت،اشارہ یاترغیب نہ دی گئی کہ ان لوگو ں کا خصوصی خیال رکھاجائے۔مجھ پرحکومت یا اِن ممبران کی طرف سے یاکسی بھی طرف سے کسی قسم کا کوئی سیاسی یامحکمانہ دباؤ نہیں تھا، جس پر مجھے حیرت ہوتی تھی۔ ایبٹ آباد چونکہ ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے، اس لئے یہاں سارا سال عوام وخواص اور سیاحوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ حکومتی شخصیات اور ادارے بھی اس شہر میں، خصوصاً گرمیوں میں، آنے کے موقع کی تاک، بلکہ تراش میں رہتے ہیں۔ میرے دور میں بھی گورنر، وزیراعلیٰ، مرکزی اور صوبائی وزراء ،قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے اراکین اورسینئرو جونیئر افسران کا آناجانا، بلکہ بار بار آنا جانا، لگارہا۔بہت سے سیاستدانوں اور افسران کے نتھیاگلی میں اپنے ذاتی بنگلے تھے ۔ دوبار صدرپاکستان جناب غلام اسحاق خان سرکاری دورے پر ایبٹ آباد آئے ۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو تربیلا کے مقام پر دو روزہ کیبنٹ میٹنگ رکھ لی، جس میں تمام وفاقی وزراء کے ساتھ ساتھ تمام وفاقی سیکرٹری بھی شریک ہوئے۔ وزیراعلیٰ صوبہ سرحد اور چند دیگر اعلیٰ صوبائی حکام کو تو بہرحال موجود ہوناہی تھا۔ فوجی اداروں میں سارا سال مختلف تقاریب جاری رہتی تھیں۔ سال میں دوبار تو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی پاسنگ آؤٹ ہوتی تھی جو ایک بہت بڑ ا ایونٹ ہوتاتھا۔دوست احباب اور عزیزواقارب کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ مجھے ہمیشہ یہ فخر رہے گا کہ مجھے جاننے والے کئی ریٹائرڈ او ر حاضر سروس آئی جی صاحبان اور دیگر سینئر افسران نے محض میرے ایبٹ آباد میں تعینات ہونے کی وجہ سے یہاں کی سیرکا پروگرام بنایا اورمجھے شرفِ میزبانی بخشا۔ چند ماہ قبل آئی جی صاحب اور ایس ایس پی ایبٹ آباد نے بے پنا ہ دلچسپی اور خرچ کے ساتھ نتھیا گلی اور ایبٹ آباد کے پولیس ریسٹ ہاؤسز کی تعمیروتزئینِ نوکی تھی، جوکوئی ان میں ٹھہرتا باغ باغ ہوجاتا۔ میری ایبٹ آباد تعیناتی کے پہلے سال ڈاکٹر عارف مشتاق اے ایس پی ،جو 2017میں آئی جی کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائرہوچکے ہیں ،کوپولیس اکیڈمی کی تربیت سے فراغت پر عملی ٹریننگ کے لئے ایبٹ آباد بھجوایاگیا۔ اگلے سال میجر مبشراللہ ایس پی(بعد میں ڈی آئی جی) جن کا حال ہی میں لاہور میں انتقال ہوا ہے اور علی ذوالنورین اے ایس پی( آج ایڈیشنل آئی جی ) کو بھجوایا گیا۔میں ان کی کس حد تک اور کس معیار کی ٹریننگ کرسکا، اس کا صحیح جواب تو یہ افسران خود ہی دے سکتے ہیں، لیکن ان کی میرے پاس موجودگی میرے لئے بہت خوشی اور تقویت کاباعث تھی۔ان تینوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔ انہی دنوں ہمسایہ ضلع مانسہر ہ میں شعیب دستگیر (آج ایڈیشنل آئی جی ) اور خواجہ شمائیل (آج ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب) بطور اے ایس پی اور اے سی عملی تربیت حاصل کررہے تھے اور صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے کے ناطے موقع بہ موقع ملتے رہتے تھے ۔

     میرے ڈی آئی جی جناب میجر(ر) فقیر ضیاء معصوم ،بڑے مستعداورمتحرک افسر تھے۔مجھ پر بہت شفقت اور اعتماد کرتے تھے۔ کمشنر جناب عبدالحمید خان کا معاملہ بھی ایساہی تھا ۔ڈپٹی کمشنر عطاء اللہ خان جو سروس اور عمر میں مجھ سے چند سال جونیئر تھے، کے سا تھ تعلقات بے تکلف دوستی میں ڈھل گئے تھے۔ یہ اُس وقت صوبہ سرحد کی بہترین ٹیم شمار ہوتی تھی، جسے دوسرے ڈویژنوں اور اضلاع کے افسران رشک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ایبٹ آباد میں تعینات ہوئے تقریباً چودہ ماہ ہوچلے تھے ۔میری پوری سروس، تب سے اب تک ، کا یہ سب سے خوبصورت دور تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عملی تفسیرکہ ’’ہر تنگی کے بعد راحت ہے‘‘۔نہ کام کا بوجھ، نہ جرائم کاخوف ۔ نہ سیاستدانوں کی طرف سے جائز وناجائز کام کرنے کا دباؤ،نہ افسران بالا کی طرف سے بلاوجہ کی نکتہ آرائیاں۔ میں اپنے فرائضِ منصبی کی کما حقہٌ ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایبٹ آباد کی دلکشیوں اور رعنائیوں سے خوب خوب لطف اندوز ہورہاتھا۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتاتھا، پھر اگست 1990ء میں ایک دن اچانک صدرپاکستان جناب غلام اسحاق خان نے مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں کو چلتا کیا اور مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتیں قائم کردیں۔ مرکز میں جناب غلام مصطفی جتوئی اور صوبہ سرحد میں جناب میر افضل خان کو بالترتیب نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ مقررکر دیا گیا، اس کے ساتھ ہی مرکز اور صوبوں میں تعینات افسران کی اُکھاڑ پچھاڑ شروع ہوگئی۔ صوبہ سرحد میں بھی ایسے ہی ہوا۔ کوئی ایک افسر بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہا۔ تمام فیلڈ افسران، دفتر ی پوسٹوں پر اور دفتر ی پوسٹوں پر تعینات تمام افسران، فیلڈ پوسٹوں پر تعینات کردیئے گئے۔ پورے صوبے کی انتظامیہ بدل گئی۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں صوبہ سرحد سے صرف تین افسران کو صوبے سے باہر، یعنی واپس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیجاگیا ۔چیف سیکرٹری جناب عمرخان آفریدی اور آئی جی جناب محمد عباس خان کو، کہ ان جیسے مرتبے اور مقام کے افسر کو صوبے میں کسی اورجگہ نہیں کھپایا جاسکتاتھا ،لیکن ان کے ساتھ ساتھ مجھ غریب الدیار ایس ایس پی ایبٹ آباد کو بھی۔ جناب محمد اعظم خان کو نیا چیف سیکرٹری اور جناب سید مسعو د شاہ (بعد میں آئی جی پنجاب بھی) کو نیا آئی جی صوبہ سرحد تعینات کردیاگیا۔ میری جگہ جناب عبداللطیف خان گنڈا پور تعینات ہوئے۔ ایک بار پھر اندھیری اور اَن دیکھی راہوں پر آبلہ پا روانہ ہونے سے پہلے میں نے کوشش کی کہ کسی طرح صوبہ سرحد میں ہی رہ جاؤں ،خواہ مجھے کسی بھی دفتر ی پوسٹ پر لگادیاجائے ۔
     اس سلسلے میں نئے آئی جی صاحب سے ملا بھی، لیکن اس وقت حالات کا جبر کچھ ایسا تھا کہ جناب سید مسعود شاہ جیسی انتہائی نفیس،شفیق اور سراپا اِخلاق واخلاص شخصیت (جیسا کہ بعد میں جب وہ آئی جی پنجاب تعینات ہوئے تو میں نے اُن کے ماتحت بطور آرپی او فیصل آباد اور گوجرانوالہ کام کرتے ہوئے انہیں پایا ) چاہتے ہوئے بھی میرے لئے کچھ نہ کرسکے۔ پورے ایک سال اور دو ماہ ایس ایس پی ایبٹ آباد رہنے کے بعد میں نے 5ستمبر 1989ء کو اپنے عہدے کا چارج چھوڑ دیا اور تیاری کا مقررہ وقت گذار کر 15ستمبر 1989ء کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کردی۔ بعد میں ملنے والی مصدقہ وغیر مصدقہ معلومات کے مطابق میرے صوبہ سرحد میں نہ رہ سکنے کی وجہ یہ بنی کہ جب افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوا اور اس دوران ایک ایک افسر پر غورہورہاتھا تو بار بار میرے نام پر ایک دوسرے سے پوچھا جاتا کہ یہ الطاف قمر کون ہے؟ کدھر سے آیاتھا؟ کس نے بھیجاتھا؟ اس افسر کی کیا بیک گراؤنڈ ہے؟ فیصلے کرنے والے یہ سب لوگ نئے تھے ۔اِن میں سے مجھے کوئی نہیں جانتاتھا، اس لئے اِن میں سے ہر کوئی میرے بارے میں کوئی کلمہ خیر کہنے یا میری’’ نیک چلنی ‘‘ کی ضمانت دینے کے بارے میں محتاط تھا، لہٰذا اتفاق اس بات پر ہوا کہ یہ ضرور پیپلز پارٹی کا کوئی خاص بندہ ہے، جسے پنجاب سے لاکر سیدھا ایبٹ آباد کی اہم اور پرائز پوسٹ پر بٹھا دیاگیاتھا، لہٰذا اسے وہیں بھیج دیاجائے، جہاں سے آیاتھا۔نیرنگئ زمانہ دیکھئے کہ گوجرانوالہ سے پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے مجھے مسلم لیگ کا وفادارسمجھ کر بطور سزا واپس بلایا، اور صوبہ سرحد بھیج دیا۔وقت بدلا ،اور سرحد سے مجھے پیپلز پارٹی کا وفادار سمجھ کر واپس بھیج دیاگیا،حالانکہ میں زمانہ طالبعلمی سے ہی نہ کبھی مسلم لیگ کا ووٹرسپورٹررہا اور نہ پیپلز پارٹی کا۔ یکے بعد دیگرے، بہاولنگر، گوجرانوالہ اور اب ایبٹ آباد سے غیرروائتی انداز میں ہونے والی یہ میری تیسری ٹرانسفر تھی جس میں انتہائی غیر سیاسی اور غیر جانبداری سے اپنے فرائض کی بجاآوری کرنے کے باوجود میں دوبڑی سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی کی بھینٹ چڑھا۔یارب!یہ تیرے سادہ لوح بندے کدھر جائیں؟
    dailypakistan.com.pk






    ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
    Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
    انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
    Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
    بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
    سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
    Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
    Salaamforum.blogspot.com 
    سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
    Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
         
      
    Facebook: fb.me/AftabKhan.page

    Nawaz Sharif Really an Indian Asset?

    $
    0
    0


    " A nation can survive its fools, and even the ambitious. But it cannot survive treason from within. An enemy at the gates is less formidable, for he is known and carries his banner openly. But the traitor moves amongst those within the gates freely, his sly whispers rustling through all the alleys, heard in the very halls of government itself. For the traitor appears not a traitor; he speaks in accents familiar to his victims, and he wears their face and their arguments, he appeals to the baseness that lies deep in the hearts of all men. He rots the soul of a nation, he works secretly and unknown in the night to undermine the pillars of the city, he infects the body politic so that it can no longer resist. A murderer is less to fear"

    [Marcus Tullius Cicero]

    Image result for Nawaz Sharif Really an Indian Asset


    <<<نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی - تجزیے ، سوالات اور جوابات


    The bombing of lawyers’ protests in Quetta on 8 August 2016 in which dozens of lawyers and civilians got killed at a hospital. All fingers are pointed to the Indian RAW. The chief minister of Baluchistan blamed RAW for these terrorist attacks. Pakistani prime minister Nawaz Sharif did not issue any statement about Indian involvement. He is also Foreign Minister of Pakistan so he saved Indians from two offices in his custody. That is how a good agent perform at the right time?
    Image result for Nawaz Sharif Really an Indian Asset

    Few months ago an old friend from Government College Lahore and a PML-Nawaz politician came to London on business trip. We had a meeting after 26 years. He said to me: “I read your articles, watch your programs but I have one complaint to you that you say that my leader Nawaz Sharif is an Indian Agent”. I said to him: “do you think I will write this about Nawaz Sharif without any evidence”? Actually it was another Old Ravian (former students of Government College) like me, you and Nawaz Sharif, a former ISI officer who wrote in his book. So ISI was not sleeping but politicians including Zia-ul-Haq were complicit in promoting this RAW asset.


    According to a book, “Air Massacre over Bahawalpur” page 341, written by Commodore Tariq Majeed: “Nawaz Sharif’s Indian Connection: India’s RAW hosted Nawaz Sharif’s visit to Delhi in 1978 and cultivated him in some ways, but he had been picked up and programmed by RAW’s masters, CIA and Mossad, to serve, like Ms Bhutto, the Zionist interests. What gives special significance and authenticity to this disclosure is that its author was a member of the key staff in ISI when Nawaz was being hooked by RAW. This is not like a spy story of James bond 007 stealing a secret of the enemy. What Nawaz Sharif and others in his team are doing is much more sophisticated and subtle. In modern world agents like Nawaz Sharif serve their masters in a very subtle way for example: “it was Nawaz Sharif who confirmed the identity of only surviving alleged terrorist of Mumbai Attacks which was quoted all over the world”. On the other hand, former IG Police of Mahrashtara said in his speech that Ajmal Kassab was in custody of the Indian Agency at the time of Mumbai Attacks. He is seeking re investigations of Mumbai Attacks and fighting case in the Indian High Court and case hearing is due in October 2016. I have spoken to him and he has confirmed to me that a trial hearing is due in October this year. Nawaz Sharif has undermined Pakistan from all sides be it economy, foreign affairs, defence or international image. For example, Nawaz Sharif did not appoint:
    1. People of Pakistan are still in shock for some time with the actions of Nawaz Sharif on the issue of 18th Amendment when he seemingly forced to support pro-Indian agenda parties like ANP/MQM and PPP. His links with Indians are not as simple and transparent as it looks. He is apparently a fan of NDTV and Bombay Palace Restaurant in London. Nawaz Sharif asked me at an APC in London in 2006 ‘Have you seen NDTV reporter’, I replied No Mian sab and can I help you at all’. His love for Indians is never ending.
    2. A full time Foreign Minister since 2013.
    3. Nawaz Sharif did not appoint a full time Defence Minister.
    4. Nawaz Sharif’s finance minister Ishaq Dar a money launderer and a liar has business interests with the Indians in Dubai. He is main defender of Indian terrorist group MQM-A.
    5. His closest ally Mahmood Khan Achakuzai declared KPK province as part of Afghanistan in an interview with Afghan newspaper but Nawaz Sharif did not say anything to him or suspend his membership or called for explanation.
    6. He has been supporting Indians on Kashmir issue and never raised this pressing matter at any international forum where Indian Prime Minster Modi was present from Russia to France to New York.
    Nawaz Sharif played well on the Indian lines and had all these messengers from singer Adnan Sami Khan to actress Sharmila Tagoor visiting his estate in Raiwind.
    In past few months Indian RAW has sleepless nights and hard days to save its asset ‘Nawaz Sharif’, the prime minister of Pakistan. Nawaz Sharif spent over 2 months in London for a minor operation which Pakistani doctors are doing daily in Pakistan.

    In the meanwhile, Indian sponsored Afghan Army attacked on the Torkham Border post and killed a Pakistani major and injured few soldiers. Nawaz Sharif dis not uttered a word. He is totally numbed since the arrest of active RAW agent Kulbushan Yadav aka (Kulbhushan Naqvi) code named ‘Monkey’. Some analysists also believe that sudden eruption of movement in Kashmir is also linked with supporting Nawaz Sharif strategy to put pressure on Pakistan Army and General Raheel Sharif.

    His businesses with India and illegal wealth abroad is matter of security risk be in Britain or elsewhere. His arms can be twisted at any time and his wealth could be confiscated at any time as what is known in British law ‘Proceeds of Crimes’. He has no receipts of his wealth and panama leaks documents are enough to twist his both arms and wring his neck.

    Even a child knows when you deliberately play with the weak team you are part of ‘match fixing’ and playing for the Indians not Pakistan. Apart from himself his toxic ministers who hates the army are Khawaja Asif and Pervez Rashid both have openly criticised the institutions of Pakistan. Both Nawaz Sharif and Pervez Rashid support GEO’s treacherous campaign against ISI and Army openly. If they did in Britain they would have been in the bottom of River Thames but Pakistan is a country full of surprises and enemy agents.
    All in all, Nawaz Sharif is the most disgraced and corrupt third time prime minster of Pakistan. He has damaged Pakistan more than all the terrorist groups and enemy forces. He is an ally of Yadave and Modi in Pakistan.

    (Dr Shahid Qureshi is senior analyst with BBC and editor of The London Post. He writes on security, terrorism and foreign policy. He also appears as analyst on Al-Jazeera, Press TV, MBC, Kazak TV (Kazakhstan), Turkish TV, LBC Radio London. He was also international election observer for Kazakhstan 2015 and Pakistan 2002. He has written a famous book “War on Terror and Siege of Pakistan” published in 2009. He is a PhD in Political Psychology and also studied Law at a British University)
    .......................................................




    Baluchistan Terrorism – Nawaz Sharif Really an Indian RAW Asset ...

    thelondonpost.net/baluchistan-terrorism-nawaz-sharif-really-an-indian-raw-asset-2/

    Aug 9, 2016 - Pakistani Prime Minister Nawaz Sharif attends the closing session of 18th South Asian Association for Regional Cooperation (SAARC) summit ...

    Nawaz Sharif Really an Indian RAW Asset? An Eye Opener - Siasat.pk ...

    https://www.siasat.pk/forum/showthread.php?...Nawaz-Sharif-Really-an-Indian...Asset...

    2 days ago - 3 posts - ‎3 authors
    Pakistani Prime Minister Nawaz Sharif attends the closing session of ... A brief meeting betweenIndia's Prime Minister Narendra Modi and his ...
    You visited this page on 8/2/17.

    Nawaz Sharif among richest politicians in ... - The Indian Express

    indianexpress.com › World

    Apr 23, 2016 - The value of his assets in 2011 was Rs 166 million, which swelled to Rs 261.6 million in 2012 and then to Rs 1.82 billion in 2013, making him a declared billionaire. ... Amidst the Panama Papers leak row, Prime Minister Nawaz Sharif has emerged as one of the richest politicians in ...

    Nawaz Sharif's Business Investments with India By Dr Shahid Qureshi

    www.insaf.pk/.../18230-nawaz-sharif-s-business-investments-with-india-by-dr-shahid-...

    Dec 28, 2015 - On the other hand, Nawaz Sharif's personal businesses with India ... was coming into Pakistan almost tax free as legitimate asset and re- invested. ... out and Pakistan Rangers is in the dock who actually understood for the first ...

    Interesting facts about the Sharif family and its business interests ...


    www.rediff.com › Business

    Jan 2, 2016 - According to a Pakistani website, Nawaz Sharif's personal holdings amount to ... This makes it incumbent upon us Indians to know better, the family and ... both Nawaz Sharif and Shahbaz Sharif's family income and assets as ...

    Viewing all 458 articles
    Browse latest View live